Select Menu

اہم خبریں

clean-5

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Misc

Technology

"شامِ غریباں"

کہانی لمبی ہے،مگر پڑھیئے ضرور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

وہ غالباً دسمبر کی ایک سرد شام تھی جب میری ملاقات پہلی دفعہ غلام حسین سے ہوئی. وہ ایک گمنام مگر بےمثال گائیک تھا اور پیشے کے لحاظ سے باٹا کا سیلزمین تھا. مجھے اپنی پسندیدہ ساخت کے جوتے خریدنا تھے مگر بہت ڈھونڈنے پر بھی اور پورا ملتان چھان ڈالنے پر بھی نا ملے.آخر خدا بھلا کرے ایک صدر میں واقعہ جوتوں کی دُکان والے کا کہ جس نے مجھے پرانے قلعہ کے قرب میں واقع باٹا کی ایک شاخ کا پتہ بتایا. میں نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو گاڑی میں بٹھایا اور چل 
پڑا۔


دسمبر میں ملتان کا روپ ہی کچھ نرالا ہوتا ہے. ڈھلتی شام کی افسردہ دھوپ جب پرانے شہر کی بےرنگ فصیلوں کو چومتی ہے تو ہر طرف ایک سنہرا غبار سا چھا جاتا ہے. گردوغبار کے بادل اور ان بادلوں کے تھکے ہوئے کندھوں پر سوار چیلیں بھی سردی سے ٹھٹھرتے نظر آتے ہیں. اس شہر پر بزرگوں اور دل والوں کا سایہ ہے. کچھ نیم تاریخی حکایات کے مطابق اسی شہر پر حملے کے دوران سکندر اعظم کی چھاتی میں ایک تیر لگا کہ جس کی وجہ سے بعد میں وہ آدھی دنیا کا فاتح موت سے ہمکنار ہوا. مجھے کچھ یوں لگتا ہے کے جیسے چھاتی میں تیر لگنے کا واقعہ استعارے کے طور پر استمعال ہوا تھا. خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ مختصر بات یہ کہ ملتان سے باہر کے لوگوں میں سے بہت کم ہیں جو اس شہر کی محبت کا شکار ہوتے ہیں. نئی سڑکوں اور پلوں کی موجودگی کے باوجود کچھ ٹوٹا پھوٹا سا شہر ہے. لہذا ٹوٹے پھوٹے لوگوں کو ہی پسند آتا ہے۔
تھوڑا بہت پوچھنا ضرور پڑا مگر آخرکار ہم باپ بیٹا اس دُکان کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے. چھوٹی سی دُکان تھی اور اسکا حلیہ دیکھ کر مجھے نہیں لگا کہ وہاں سے میری مراد پوری ہوجائے گی. خیر ڈوبتے دل کو سہارا دیا اور اندر داخل ہوگئے. ایک عام سا سیلزمین اکیلا کھڑا جھاڑ پونچھ کر رہا تھا. شخصیت اس قدر بےکشش تھی کے میں نے اسکی طرف غور سے دیکھے بغیر جوتوں کا پوچھا. اس نے انتہائی غور سے میری ہدایات سنیں
سر آپ تشریف رکھیں. میں اوپر گودام میں چیک کرتا ہوں. امید ہے کے جو جوتے آپ مانگ رہے ہیں وہ سٹاک میں موجود ہیں. بس الله کرے ناپ کے پورے ہوں.’ اس نے مستعدی سے کہا اور پھر پھرتی سے اور ‘یا علی مدد’ کہہ کر لوہے کی سیڑھیاں چڑھ کر گودام میں چلا گیا۔
میں بیٹھنے کی بجائے اپنے بیٹے کے ساتھ شو کیسوں میں سجے جاگر دیکھنے لگا. جوتے دیکھتے دیکھتے اچانک میرے کانوں میں گنگنانے کی آواز پڑی تو میں چونک گیا. کوئی بہت ہی مدھر سروں میں استاد فتح علی خان صاحب کے انداز میں ‘گھر کب آؤ گے؟’ گنگنا رہا تھا. عجیب سا درد کسمسا رہا تھا سروں میں. میرے بیٹے نے بھی سن کر میری طرف دیکھا۔
‘بابا یہ کون گا رہا ہے اور کیا گا رہا ہے؟’
شاید وہ جوتوں والے انکل ہیں. درد گا رہے ہیں اور خوب گا رہے ہیں.’ میں نے مسکراتے ہوئے اور اسکی چمکتی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جواب دیا۔


اتنے میں وہ سیلزمین بھی ایک جوتوں کا ڈبہ اٹھاے نیچے اتر آیا
‘لیجئے صاحب. میرا خیال ہے کہ آپ یہ ہی چیز مانگ رہے تھے’
جوتوں کو چھوڑو. یہ بتاؤ ابھی اوپر تم گنگنا رہے تھے؟’ میں نے بےصبری سے اوپر سے نیچے اس لڑکے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
وہ چھوٹے سے قد کا، نہایت سانولے رنگ کا اور اکہرے بدن کا جوان لڑکا تھا. گھنگریالے سیاہ بال اور بھینگی سرمہ لگی آنکھیں جن میں ذہانت کی چمک نمایاں تھی اور چمکتے ہوئے سفید مگر ٹیڑھے میڑھے دانت. کالے رنگ کا شلوار قمیض پہن رکھا تھا جو وقت کی مار کھا کھا کر اور دیسی صابن سے دھل دھل کر گہرے سرمئی رنگ کا ہوچلا تھا. کالر سے نیچے دو بٹن کھلے ہوئے تھے اور کھلے گریبان سے کچھ تعویذ جھانک رہے تھے. ایک کلائی میں پتلا سا چاندی کا کڑا چمک رہا تھا. پاؤں میں معمولی سی ہوائی چپل پہنے ہوئے تھا۔
.جی سر. میں ہی تھا. گنگانا کیا ہے بس جی خوش کر رہا تھا.’ اس نے شرماتے ہوئے کہا’
.بہت خوبصورت آواز ہے تمہاری. نام کیا ہے؟’ میں نے دلچسپی سے اسے شرماتے ہوئے دیکھا’
.سر بندے کو غلام حسین کہتے ہیں.’ اس نے نہایت انکساری سے جواب دیا’
کسی اچھے خاندان کے لگتے ہو. گانا سیکھا ہے کہیں سے کہ بس خدا کی دین ہے؟’ میں نے اسکے لب و لہجے پر غور کرتے ہوئے پوچھا۔

پتہ نہیں سر آپ اچھا خاندان کسے کہتے ہیں؟ بہرحال میرا تعلق گائیکوں کے ایک مشہور خاندان سے ہے اور میں فلانے صاحب کا نواسہ ہوں.’ اس نے ماضی کے ایک مشہور ومعروف لوک گلوکار کا نام لیا تو میں بری طرح سے چونک گیا۔
کیا کہہ رہے ہو غلام حسین؟ تم ان صاحب کے نواسے ہو؟’ میں نے حیرانی سے پوچھا: ‘تو پھر یہاں جوتوں کی دکان میں کیا کر رہے ہو؟
سر میں ان کا نواسہ ضرور ہوں مگر صرف سر ہی وارثت میں پایا ہے. لیکن وہ خود کونسا بڑی امارت میں فوت ہوئے تھے؟ بہت کسمپرسی میں انتقال ہوا انکا.’ غلام حسین نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا
.شادی شدہ ہو؟’ میں نے پوچھا’
.جی سر، مولا کے کرم سے دو بچے ہیں: سکینہ اور علی اصغر.’ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’
ماشاء الله. اس نوکری سے گزارا ہوجاتا ہے یا پھر کچھ اور بھی کرتے ہو؟’ میں نے جوتے کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔
شکر ہے پنچتن پاک کا سر. بس یہ نوکری کرتا ہوں اور محرم میں مجالس میں لوگ بلا لیتے ہیں نوحہ خوانی کیلئے. مل جل کر گزارا ہو ہی جاتا ہے.’ اس کے چہرے پر مسکراہٹ ضرورتھی مگر آواز میں غربت اور بھوک سسک رہی تھی۔
میں اور کچھ نہیں بول سکا بس جوتے خریدے، غلام حسین سے اسکا موبائل نمبر لیا اور بیٹے کو لیکر دکان سے نکل گیا. گھر تک کا سارا راستہ گاڑی کے میوزک پلیئر پر غلام حسین کے نانا مرحوم کی آواز گونجتی رہی اور میں سوچتا ہی رہا، غلام حسین کے بارے میں، اسکی درد بھری آواز کے بارے میں اور اپنے معاشرے کے بارے میں جس کو شاید ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں تھی۔
_______________________________________________
غلام حسین سے میری دوسری ملاقات میرے ایک دوست جواد کے دفتر میں ہوئی جس کا ایڈورٹائزنگ کا کاروبار تھا. میں ابھی اپنے دفتر کے کام سے فارغ ہی ہوا تھا کے اچانک اسکا فون آ گیا
کیا کر رہے ہیں سر؟ فارغ ہیں تو دفتر سے سیدھا ادھر ہی آجائیں. آپ کی ملاقات کرانی ہے ایک ہیرے سے.’ اسکی زندگی سے بھرپور آواز موبائل پر گونجی۔
.کونسا ہیرا ڈھونڈ لیا اب تم نے؟’ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا’
بس آپ پہنچنے کی کریں. ہیرے کو سنیں گے تو اسکی چمک کا احساس ہوگا.’ جواد کو میری موسیقی سے دلچسپی کا اچھی طرح سے علم تھا۔


_______________________________________________________
میں جواد کے دفتر کے سامنے گاڑی پارک کرکہ اندر داخل ہوا تو میری نظر سب سے پہلے غلام حسین پر پڑی. وہ مجھے دیکھ کر تھوڑا حیران ضرور ہوا مگر فوراً اٹھ کر میرا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔
.آپ ایک دوسرے سے پہلے ہی واقف ہیں؟’ جواد نے چونک کر پوچھا’
نا صرف واقف ہیں بلکہ چمک کا بھی اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے.’ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور جواد کو جوتوں کی دوکان کی داستان سنا ڈالی۔
جواد کے پاس بیٹھے غلام حسین سے تفصیلاً گپ شپ لگی تو اسکے حالات کا کچھ بہتر طریقے سے اندازہ ہوا. بہت ہی غریب آدمی تھا. جواد کے کسی دور کے رشتے دار کا جاننے والا تھا اور اسکے پاس بھی اس لیے آیا تھا کے ریڈیو پاکستان میں کوئی سفارش ہوجائے. خیر اس بیچارے کا کام ہوگیا. جواد کی تھوڑی واقفیت تھی ریڈیو پاکستان میں. وہ کام آگئی۔
وہیں بیٹھے تھے کے سُروں کی بات چھڑ گئی۔’
تمہیں اور تمہارے خاندان کو الله نے، سرکی دولت سے نوازا ہے غلام حسین. مجھے افسوس ہے کہ ہمارا معاشرہ اسکی قدر نہیں کر سکا.’ میں نے سنہری چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا
سر دولت نہیں ہے سر. بلکہ ایک امتحان ہے. بس میری دعا ہے کے مولا مجھے اس امتحان میں پاس کر دے.’ اس نے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا
.امتحان کیسے غلام حسین؟’ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا’
الله کی ہر نعمت امتحان ہوتی ہے سر. وہ بس پرچہ ترتیب دیتا ہے. جواب تو ہم نے دینا ہوتا ہے. وہ پوچھے گا کہ ہاں بھائی غلام حسین! بھلا کیسے استمعال کیا تم نے ہماری دی نعمت کا؟ تو جواب تو ہونا چاہیے نا اچھا سا؟’ اس نے مجھ سے پوچھا
ہاں بالکل.’ میں نے اقرار میں سر ہلایا اور پوچھا: ‘تو پھر تم کیا جواب دو گے؟ کیسے استمعال کرتے ہو سروں کو؟
میں؟’ غلام حسین کی آنکھیں کسی اندرونی جذبے کی حدّت سے چمکنے لگیں. ‘میں سر…..میں کہوں گا الله تعالی، میں نے جو بھی گایا، تیرے حبیبﷺ کے نواسے کی محبت میں گایا. اس سے بہتر کیا استمعال کرتا تیرے دیے سر کا؟
.ہوں!….ٹھیک. پھر اللہ کیا کہے گا؟’ میں نے اسکی سادگی اور محبت کو ادب سے دیکھتے ہوئے کہا’
پھر الله نے کیا کہنا ہے؟ یہ ہی کہے گا کہ ٹھیک ہے جاؤ غلام حسین. تم بخشے گئے ہو.’ اس نے سرشار ہو کر بند آنکھوں کے ساتھ کہا۔
اچھا یہ مجھے بتاؤ غلام حسین کہ یہ تم لوگ ماتم کیوں کرتے ہو؟ مجھے کچھ تم لوگوں کا رونا پیٹنا سمجھ نہیں آتا. مذہب میں بھی غالباً اسکی گنجائش نہیں.’ میں نے احتیاط سے پوچھا. میں جاننا چاہتا تھا کے غلام حسین اس بارے میں کیا خیالات رکھتا ہے


ماتم؟ واقعہ کربلا پرماتم تو ہر مسلمان کو کرنا چاہیے سر.’ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ‘حسین معمولی آدمی نہیں تھے. وہ نواسہ رسولﷺ تھے. نبیﷺ کے پیارے تھے. حضورﷺ جب نماز پڑھتے تو حسن و حسین کندھوں پر سواری کیا کرتے تھا انکی. اب آپ بتائیں کیا کسی اور کو یہ مرتبہ حاصل تھا؟ نبیﷺ کے پیارے کو، راج دلارے کو، مار دیا ان ظالموں نے. تو رونے کی، ماتم کرنے کی بات تو ہے نا یہ؟ اگر حضورﷺ کے دکھ پر بھی نا روے تو روز قیامت کس منہ سے ان سے شفاعت کی امید رکھیں گے؟
غلام حسین کی معصوم حیرت مگر بامعنی دلیل نے مجھے شرمندہ کر دیا. خیر باتیں چلتی رہیں. چائے چلتی رہی. بلا شبہ وہ ایک منفرد انسان تھا. وقت کا احساس تب ہوا جب قریبی مسجد کے لاؤڈسپیکر پر مغرب کی اذان گونجی. میں نے چونک کر گھڑی دیکھی اور پھر اٹھ کر جواد سے اجازت لی. نکل ہی رہا تھا کہ غلام حسین نے بھی راستے میں بس اسٹاپ پر اتارنے کی گزارش کر ڈالی. اسکو بھی ساتھ لے لیا۔
باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھ ہی رہے تھے کے آسمان پر بادل گرجے اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنی شروع ہوگئ. میرا دل نہیں کیا کے میں سردیوں کی بارش میں غلام حسین کو بس اسٹاپ پر ہی اتار دوں. میں نے اسے گھر اتارنے پر اصرار کیا تو بیچارا گھبرا کر کہنے لگا
‘میرا گھر اندررون بوہڑ گیٹ میں ہے سر. تنگ تنگ گلیاں ہیں. آپکی گاڑی کا حشر خراب ہوجائے گا’
کوئی بات نہیں یار.’ میں نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا. ‘اور تو کوئی خدمت کر نہیں سکتا تمھاری. یہ ہی سہی۔
وہ راستہ بتاتا رہا اور میں ڈرائیونگ کرتا رہا. واقعی بہت گنجان علاقہ تھا. تنگ وتاریک گلیاں تھیں. ٹریفک زیادہ ہوتی تو گزرنا محال ہوتا مگر میں خاموشی سے بارش کا شکریہ ادا کرتا رہا کے جسکی وجہ سے بہت رش نہیں تھا. آخر ایک گلی کے سامنے غلام حسین نے گاڑی رکوا دی
بس یہیں روک لیں سر. اسی گلی کے آخر میں میرا گھر ہے. گاڑی یہیں پارک کر دیں. میرے ساتھ چل کر گھر پر چائے کا ایک کپ پی لیں. یقین مانیں، میں اسے اپنے لئے بڑی عزت کی بات سمجھوں گا۔
میں جلدی واپس گھر پہنچنا چاہتا تھا مگر اسکے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کے میں انکار نا کرسکا. گاڑی وہیں ایک پان سگریٹ کے کھوکے کے سامنے کھڑی کردی، جس کا مالک غلام حسین کا جاننے والا تھا. گلی میں داخل ہوئے تو اونچی دیواروں اور سٹریٹ لائٹ کے نا ہونے کے سبب تاریکی کا احساس کچھ اور بڑھ گیا. مگر کچھ دور ہی چلے ہوں گے کے اس کا مکان آ گیا
سر آپ ایک منٹ یہیں ٹہریں. میں اندر اطلاع کر دوں.’ غلام حسین نے کہا اور پھٹا پرانا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوگیا۔
میں نے مکان کا جائزہ لیا. بالکل سامنے ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کی صدر محراب پر جلتے پیلے بلب سے کچھ روشنی موجود تھی. ننگی اینٹوں کی دیواروں والا چھوٹا سا گھر تھا جو دونوں اطراف سے پڑوس کے مکانوں سے متصل تھا. لکڑی کا دروازہ پردے سے ڈھکا ہوا تھا اور چونکہ گلی کے فرش سے اونچا تھا تو دو تین سیڑھیاں بھی موجود تھیں جن کے درمیان میں ایک سیمنٹ سے بنی ڈھلان بنی ہوئی تھی. غالباً سائیکل یا موٹر سائیکل چڑھانے کیلئے بنائی گئی تھی. مکان کی دیواروں پر جگہ جگہ بڑے بڑے حروف میں کچھ لکھا ہوا تھا. پہلے تو میں نے دھیان نہیں دیا کہ شاید حسب معمول کسی حکیمی دوائی کا اشتہار ہوگا. لیکن جب ادھر ادھر نظر ڈالی تو احساس ہوا کے لکھائی صرف غلام حسین کے گھر کی دیواروں پر تھی. ارد گرد کے تمام گھروں کی دیواریں بالکل صاف تھیں۔.
میں نے آنکھیں پھاڑ کرپڑھنے کی کوشش کی تو پتا لگا ‘شیعہ کالا کافر ہے.’ لکھا ہوا تھا. ایک لمحے کیلئے تو میرا پارہ چڑھ گیا. ‘مذاق بنا لیا ہے اس قوم نے. برداشت بالکل ختم ہوگئی ہے.’ میں نے کھولتے ہوئے سوچا۔
اسے چھوڑیں سر. بچے شرارت سے لکھ گئے ہیں.’ غلام حسین نے باہر نکل کر مجھے لکھائی کی طرف گھورتے ہوئے دیکھا تو مسکرا کر کہا. ‘آئیں اندر چلیں
عجیب شرارت ہے؟ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے لکھنے کی؟’ میں غصے میں بڑبڑایا اور پھر سر جھٹک کر اس کے پیچھے اندر بڑھ گیا۔
عجیب بات یہ تھی کے محلے میں تو بجلی موجود تھی مگر غلام حسین کے گھر میں بالکل اندھیرا تھا. روشنی صرف اسکے ہاتھ میں پکڑی لالٹین سے آ رہی تھی. خیر میں نے کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا. میرا خیال تھا کے شاید غریب بل نا جمع کرا سکا ہو اور محکمے نے بجلی کاٹ دی ہو. ایک چھوٹی سی راہداری سے گزر کر ہم ایک مختصر سے صحن میں پہنچ گئے. فرش پر پرانے سٹائل میں سیاہ اور سفید ٹائلیں لگی تھیں، صحن کے دونوں اطراف کمرے تھے. ایک کمرے کے اوپر پرچھتی ڈلی تھی. میرے بالوں پر پانی کے کچھ قطرے گرے تو میں نے اوپر دیکھا. صحن کے بالکل اوپر چھت میں ایک چھ فٹ ضرب چھ فٹ کا مربع شکل میں سوراخ کھلا ہوا تھا جس کے اطراف میں لکڑی کی جالیاں لگی تھیں۔
السلام علیکم انکل!’ کی آواز کورس میں گونجی تو میں نے مڑ کر دیکھا. دو صاف ستھرے بچے کھڑے تھے. ایک شاید پانچ ساڑھے پانچ سال کی بچی اور دوسرا ایک تقریباً چار سال کا لڑکا. ‘ہوں!….تو یہ ہیں سکینہ اور علی اصغر.’ میں نے دونوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور انکا نام لیا تو وہ حیرت سے پہلے شرمایے اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
بہت مزے کی چائے بنائی تھی غلام حسین کی بیوی نے. ساتھ چنے کی دال کی مٹھائی تھی اور آلو کے خستہ پکوڑے. مزہ آ گیا. میں پندرہ بیس منٹ بیٹھا اور پھر غلام حسین کے بیحد منع کرنے پر بھی اس کے بچوں کے ہاتھ میں تھوڑے سے پیسے تھما کر جانے کو اٹھ کھڑا ہوا۔
___________________________________________
گھر سے باہر نکلے تو بارش تھم چکی تھی
چلو اچھا ہے، بارش تھم گئ. تمہارا گھر تو پرانا ہے. چھتیں ٹپکنے سے بچ گئیں.’ میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے غلام حسین سے کہا۔
چھتیں ٹپکنے سے تو ہمارا پانی پورا ہوتا ہے سر. بارش نا ہو تو پڑوسیوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں. کبھی ترس کھا کر پانی دے دیتے ہیں، کبھی نہیں. مرضی کی بات ہے.’ اس نے کہا تو میں چونک گیا
‘کیوں؟ تمہارے گھر کمیٹی کا پانی نہیں آتا غلام حسین؟ اور ہاں بجلی کیوں نہیں آ رہی تمہارے گھر؟’
چھوڑیں سر. لمبی کہانی ہے. پھر کبھی سناؤں گا. ابھی آپ گھر سے لیٹ ہورہے ہیں.’ اس نے ایک افسردہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
میں کچھ پوچھنے ہی لگا تھا کے سامنے مسجد کے صدر دروازے سے تین چار نوجوان نکل آئے. کپڑوں اور سر پر بندھی مخصوص رنگ کی پگڑیوں سے اندازہ ہورہا تھا کے ان کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے ہے. مجھے اور غلام حسین کو دیکھ کر اچانک رک گئے اور آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے. پھر وہ ہماری طرف بڑھے ہی تھے کے غلام حسین نے اچانک مجھے دھکیلتے ہوئے کہا
‘آپ اب چلیں سر. بہت دیر ہوچکی’
مجھے اس کا اس طرح سے دھکیلنا عجیب تو بہت لگا مگر پھر کچھ سوچ کر میں نے قدم بڑھایا ہی تھا کے ایک کرخت آواز نے قدم روک لیے
‘تو نے مکان نہیں چھوڑنا شیعہ کی اولاد؟’
میں نے مڑ کر دیکھا تو ان نوجوانوں میں سے ایک آگے بڑھ کر ہم سے مخاطب تھا
.میرے مہمان آئے ہیں. انکو رخصت کرکے آتا ہوں. پھر بات کرتا ہوں آپ لوگوں سے.’ غلام حسین نے گھبرا کر کہا’
.اوئے تیرے مہمان کی ایسی کی تیسی.’ ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر غلام حسین کو گریبان سے پکڑ لیا’
.کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو؟’ میری دخل اندازی ضروری ہوچکی تھی’
.تمہیں اس سے کیا؟ تم کون ہو؟ شیعہ ہو یا سنی ہو؟’ اس لڑکے نے بڑی بدتمیزی سے مجھ سے پوچھا’
میں جواب تو یہ دینا چاہتا تھا کہ نا شیعہ ہوں، نا سنی، نا مسلمان، بس انسان ہوں. لیکن پھر معاملے کی نزاکت کو مدِنظر رکھ کر بولا: ‘سنی ہوں. لیکن کیا بات ہے؟ تم لوگ اس غریب کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟
سنی ہو تو اس کافر کے گھر کیا کرنے آئے ہو؟’ ایک اور نوجوان نے اگے بڑھتے ہوئے کہا اور پھر غلام حسین کی بیوی کے کردار کے بارے میں ایسی بیہودہ بات کی کہ میرا خون کھول اٹھا. خیر وہ چار تھے اور ہم دو. میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ انہیں گھورتا رہا۔
تم جاؤ اپنا کام کرو بابو. ہمیں اپنا کرنے دو.’ ان کے لیڈر نے شاید میرے لباس سے میری حیثیت کا تھوڑا بہت اندازہ لگا لیا تھا۔
غلام حسین میرا دوست ہے. میں اس کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا. پہلے تم بتاؤ کہ بات کیا ہے؟’ میں نے آرام سے اس سے پوچھا
دوست ہے تو اس کو سمجھاؤ. یہ مسلمانوں کا محلہ ہے. یہاں اسکی اور اسکے بچوں کی کوئی گنجائش نہیں. ہم زیادہ انتظار نہیں کریں گے.’ ان نوجوانوں کے لیڈر نے غرا کر کہا اور پھر ہم دونوں کو سر سے پاؤں تک نفرت سے گھور کر باقی لڑکوں کو لیکر وہاں سے چلا گیا۔
.یہ کیا معاملہ ہے غلام حسین؟’ میں کچھ کچھ بات سمجھ چکا تھا لیکن پھر بھی اس سے پوچھا’
کیا بتاؤں سر؟ ہم پچھلی کئی دہائیوں سے اس محلے میں رہتے آ رہے تھے. کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا. مگر پچھلے سال ہی مسجد کے پرانے امام صاحب کا انتقال ہوگیا. بہت نیک اور فرشتہ صفت انسان تھے. ان کے انتقال کے بعد مسجد پر ایک سنی انتہاء پسند گروپ نے قبضہ کر لیا ہے. ان سے محلے میں ایک شیعہ کا وجود برداشت نہیں ہوتا. شاید میں نوحے اور نعتیں نا پڑھتا ہوتا تو کسی کو میرے شیعہ ہونے کا پتا نہیں چلتا. لیکن کیا کروں؟ ہم غریبوں کا گزارا تو ہوتا ہی سُر کی کمائی پر ہے. جب انکو میرے شیعہ ہونے کا پتہ چلا تو پہلے تو صرف مجھے مسجد میں نعتیں پڑھنے سے روکا، لیکن اب کچھ مہینوں سے انکی زیارتیاں حد سے بڑھ چکی ہیں. بجلی اور پانی دونوں زبردستی کاٹ دیے ہیں. بچے اور بیوی باہر نکلتے ہیں تو دھمکیاں دیتے ہیں. میرے بچوں نے تو ڈر کے مارے اسکول جانا ہی چھوڑ دیا ہے سر.’ غلام حسین کی آواز بے بسی کی نمی سے دھندلا گئ
.’چاہتے کیا ہیں یہ؟’ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا’
چاہنا کیا ہے سر؟ بس کہتے ہیں یہ محلہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جاؤ. اب آپ بتائیں میں غریب اس آبائی گھر کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ اور کیا گارنٹی ہے کہ جہاں جاؤں گا، وہاں سے نہیں نکالا جاؤں گا؟’ اس بیچارے نے قمیض کے دامن سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
.تم نے اپنے کسی مذہبی لیڈر سے بات کی؟’ میں نے افسوس سے پوچھا’
بہت لوگوں سے بات کی سر. بہت سوں سے مدد کی درخواست بھی کی. لیکن کسی کو مجھ سے غرض نہیں ہے. بس محرم میں نوحے سن کر ہائے ہائے کریں گے، میری جیب میں چار پیسے ڈالیں گے اور بس.’ غلام حسین نے سر اٹھا کر میری آنکھوں میں جھانکا: ‘آپ میری کوئی مدد کریں سر. آپ کے دوستوں میں تو پولیس والے اور ضلعی انتظامیہ والے بھی ہوں گے. آپ ان سے بات کریں سر. میں اور میرے بیوی بچے ساری زندگی آپ کے پاؤں دھو دھو کر پیئیں گے.’ اس نے بیچ گلی میں میرے پاؤں پکڑنے کی کوشش کی
کیا کرتے ہو غلام حسین؟ تم فکر نا کرو. میں کل ہی کسی سے بات کرتا ہوں.’ میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا

گھر تک کا سارا راستہ اسی سوچ بچار میں گزرا. گھر جا کر بیوی سے بات کی تو وہ بولی
گھر کے پیچھے سرونٹ کوارٹر کب سے خالی پڑا ہے. آپ کل جا کر ان غریبوں کو یہاں لے آئیں. میں اسکے بچوں کو اپنے بچوں کے اسکول میں داخل کروا دوں گی. یہاں انکو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔
بیوی کی بات میرے دل کو لگی اور میں نے دل ہی دل میں اگلے دن جواد کے ذریعے غلام حسین کو منانے کا ارادہ کرلیا۔
____________________________________________
اگلے دن میں نے دفتر کا کام جلدی جلدی سمیٹا اور جواد کی طرف جانے ہی لگا تھا کے وہ خود آن پہنچا۔
بھائی بہت لمبی عمر ہے تمھاری. میں تمھاری ہی طرف آنے کے بارے میں سوچ رہا تھا.’ میں نے اسکے دفتر میں داخل ہوتے ہی کرسی سے اٹھ کر کہا. لیکن پھر چونک کر رک گیا۔
جواد کا حال بہت خراب تھا. چہرے پر تاسف اور سراسیمگی، ہونٹوں پر پپڑیاں، بال بکھرے ہوئے اور سرخ ہوتی آنکھوں میں آنسو۔
کیا ہوا جواد؟ خیر تو ہے؟’ میں نے اسکو کرسی پر بٹھاتے ہوئے اور پانی کا گلاس اسکے سامنے سرکاتے ہوئے کہا
.کچھ نا پوچھیں بھائی. بہت بڑا ظلم ہوگیا آج.’ اس نے بالوں کو انگلیوں سے بھینچتے ہوئے کہا’
‘کچھ بتاؤ تو پتا چلے.’ میں نے پریشانی سے پوچھا: ‘گھر پر سب ٹھیک ہے؟’
‘میرے گھر پر سب ٹھیک ہے مگر بیچارا غلام حسین اپنے پورے خاندان سمیت ختم ہوگیا’
.کیا کہہ رہے ہو؟ یہ کیسے ہوا؟ کیا ہوا؟’ مجھے ایک لمحے کو جواد کی بات پر یقین نہیں آیا’
جواد نے پانی کے گلاس کو ایک ہی سانس میں خالی کیا اور پھر مجھے پوری تفصیل سے آگاہ کیا۔
غلام حسین کا مینیجر اسکے گھر کے قریب ہی رہتا تھا. روز صبح دوکان پر جاتے ہوئے وہ غلام حسین کو بھی ساتھ موٹر سائکل پر بٹھا کر لے جاتا. اسطرح اسکا کرایہ بھی بچ جاتا اور وہ دکان پر بھی ٹائم پر پہنچ جاتا. اس دن بھی مینیجر غلام حسین کو حسب معمول لینے کیلئے آیا مگر بڑی دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود کوئی نہیں نکلا. لیکن دروازہ اندر سے بند نہیں تھا. اسکو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تو وہ اندر داخل ہوا. اندر سب کچھ خون میں لت پت تھا. غلام حسین کا سر کاٹ کر بیت الخلاء میں پھینکا ہوا تھا. اسکی بیوی اور بچوں کو بھی انتہائی بیدردی سے ذبح کر دیا گیا تھا. پولیس نے کمال فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نامعلوم افراد کے نام پرچہ کاٹ دیا تھا. لاشیں نشتر ہسپتال کے مردہ خانے میں پوسٹ مارٹم کا انتظار کر رہی تھیں۔
میں نے اور جواد نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر جلدی جلدی پوسٹ مارٹم کروایا اور مییتیں لیکر غلام حسین کے گھر پر آ گئے. ارادہ تھا کےرات عشاء کے فوری بعد تدفین کر دی جائے گی. تھوڑے بہت رشتےدار اکٹھے تھے اور جو تھے وہ بھی ڈری ڈری نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے. میرے لئے بہت بڑا واقعہ تھا اور ان چار جنازوں کی طرف دیکھتے ہی میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے تھے. لیکن کسی نا کسی طرح میرا ضبط قائم تھا.
جنازے گھر سے نکلے تو بس گنتی کے سولہ افراد جنازے میں شامل تھے. وہ بھی بس واسطے دے دے کر پورے کئے کہ اس کے بغیر چار جنازے اٹھانا ممکن نہیں تھا. ابھی گھر کے دروازے پر ہی تھے کے موسلادھار بارش شروع ہوگئ. جواد نے تھوڑا انتظار کرنے کی بات کی تو میں نے اسے سمجھایا کہ انتظار کیا تو وہ چودہ افراد بھی کسی نا کسی بہانے سے نکل جائیں گے. اسی بحث کے دوران میری نظر سامنے پڑی تو مسجد کے دروازے پر کچھ بےحس لوگ پیلے بلب کی روشنی تلے کھڑے، چپ چاپ ہماری طرف دیکھ رہے تھے. لیکن ان میں پچھلے دن والا کوئی لڑکا شامل نہیں تھا۔
.آئیے. آپ بھی کندھا دے دیں.’ میں نے مسجد کے دروازے پر کھڑے افراد کو دعوت دی’
.شیعہ کا جنازہ ہے.’ ایک مولانا نے تھوڑا گھبرا کر کہا تو میرا ضبط جواب دے گیا’
.جنازے یہیں گلی میں رکھ دو.’ میں نے اپنی پارٹی کو کہا’
یہ شیعہ کا جنازہ نہیں ہے. خانوادہ رسولﷺ کا جنازہ ہے. ‘ میں نے مسجد کے سامنے کھڑے افراد کو سرد آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تو ان میں سے دبی دبی ‘لاحول ولا قوت! ‘لاحول ولا قوت!’ کی آوازیں بلند ہوئیں
کیوں یقین نہیں آیا میری بات پر؟’ میں نے بےقابو ہوتے ہوئے کہا. جواد نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روکنے کی کوشش کی مگر میں نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔
یہ دیکھو!’ میں نے سب سے پہلی میّت کے چہرے سے کفن اٹھایا اور مولانا کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسکو دیدار کروایا: ‘یہ غلام حسین نہیں، حسین ہے. بس سر نیزے پر نہیں چڑھا۔
یہ دیکھو!’ میں نے ایک اور خاموش تماشائی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور دوسری میّت کے منہ سے کفن ہٹایا: ‘یہ علی اصغر ہے. اس کا خون سے لت پت کفن دیکھو۔
اور یہ باقی دونوں جنازے…….’ میں نے غلام حسین کی بچی اور بیوی کے جنازوں کی طرف اشارہ کیا: ‘یہ دونوں جنازے سکینہ اور زینب کے ہیں


مسجد کے سامنے کھڑا پورا گروہ شرمساری سے سر جھکائے کھڑا تھا۔
یہ محلہ نہیں کربلا کا میدان ہے. پانی تم لوگوں نے بند کر دیا ان غریبوں کا. تم لوگ یزید سے بھی بدتر ہو. اس نے تو صرف سکینہ کے کان سے بالیاں کھنچوائیں تھیں اور زینب کو بےپردہ کیا تھا. تم لوگوں نے تو جان سے ہی مار دیا۔
مجھے اچانک پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں نے وہیں برستی بارش میں زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مارمار کر رونا شروع کر دیا۔
.بس کریں بھائی جان. مت روئیں.’ جواد نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چپ کرانے کی کوشش کی’
میں کیوں نا روؤں جواد؟ میرے رسولﷺ کا خانوادہ ختم کیا جا چکا ہے. میں روز قیامت کیا منہ دکھاؤں گا؟’ میں نے آنسوؤں کی دھند میں سے جواد کو ڈھونڈھتے ہوئے پوچھا تو وہ بھی خود پر قابو نا پا سکا اور رو پڑا۔
پورا مجمع خاموش تھا۔
بس شام غریباں میں ہم دو نفوس شامل تھے۔

Urdu Dubbed Famous Turkish drama Serial Only on PTV Home | Pakistan Television Limited

Urdu Dubbed Famous Turkish drama Serial Only on PTV Home | Pakistan Television Limited

PTV to telecast famous Turkish drama serial Ertugrul Gazi from Ramazan 1ISLAMABAD, Apr 19 Special Assistant to the Prime Minister on Information and Broadcasting Dr Firdous Ashiq Awan on Sunday said that world renowned .Turkish historical drama serial, Ertugrul Gazi, depicting Muslim victories in the 13th century would be telecast by PTV with Urdu dubbing from the first of the holy month of Ramazan.  In a tweet, she said that the teleplay being telecast with Urdu dubbing, on the directives of Prime Minister Imran Khan, would go on air daily from 9.10 pm. She said that Pakistan and Turkey enjoyed strong brotherly bonds deeply rooted in religious and cultural relations.  She said this drama serial would help the people of Pakistan to understand the Islamic history and the culture and heritage of that era.

PTV Home Airs Urdu Version of Turkish Series Diriliş: Ertuğrul, and PM Khan is Delighted
Watach Episode2 ertugrul,ertugrul ghazi,ptv,ptv home,ertugrul urdu,trt,ertugrul trt,turkish drama,urdu dubbed

#ErtugrulUrduPTV is trending on top on Twitter in Pakistan
PTV Home kicks off the broadcast of the much anticipated Urdu version of internationally acclaimed Turkish Series Diriliş: Ertuğrul form the first of Ramazan.


As soon as the first episode of Ertugrul Ghazi went on air, hashtag #ErtugrulUrduPTV is trending top on Twitter in Pakistan.
As  PM Imran Khan had made a special request to make arrangements to broadcast the internationally hit series on State Television. He is delighted for the series being aired in Pakistan on the national television, where millions of Pakistanis can enjoy it with Urdu dubbing.

As soon as the first episode of Ertugrul Ghazi
During a recent media interaction, PM shared his views about the hit series. He added that the youth can learn about Islamic history and ethics by watching Turkish drama.
Diriliş Ertuğrul translated as Resurrection: Ertugrul, originally aired on TRT TV in 2014 and it concluded with its 5th season in 2019.
PTV reportedly obtained the broadcast rights of the drama from the Turkish Radio and Television Corporation (TRT).
The series is based on the life of 13th century Oghuz warrior Ertugrul, pronounced as “air-TU-rule”. Who is said to be the father of Osman Ghazi 1, the founder of the Ottoman Empire.

Urdu Dubbed Famous Turkish drama Serial Only on PTV Home | Pakistan Television Limited
And Pakistanis are delighted to watch this series in Urdu and took to social media to express their excitement . #srytv #sry #shahidiqbalch

Champions With Waqar Zaka Episode 21 | Champions BOL House | Waqar Zaka Show

Champions With Waqar Zaka Episode 21 | Champions BOL House | Waqar Zaka Show

big boss live,Waqar zaka,Champions,Champion,Champions Episode 21,Champions BOL House Episode 21,Waqar zaka show,BOL Tv,BOL 
Champions With Waqar Zaka Episode 21 | Champions BOL House | Waqar Zaka Show
Entertainment,BOL Channel,BOL,Champion with Waqar zaka,Waqar zaka new show,living on the edge,over the edge,living in the edge,Waqar zaka living on the edge,Reality Show,best reality Show,Pakistani Reality Show,BOL Reality Show,BOL House,Champions bol house,Big Boss,pakistani big boss,champions live
champions with waqar zaka episode 10 champions with waqar zaka episode 11 champions with waqar zaka episode 13 champions with waqar zaka timings champions with waqar zaka contestants champions with waqar zaka episode 8 champions with waqar zaka episode 15 champions with waqar zaka episode 12
champions with waqar zaka episode 12 champions with waqar zaka episode 8 champions with waqar zaka episode 7 champions with waqar zaka episode 3 bol entertainment schedule champions with waqar zaka contestants list champions waqar zaka timing waqar zaka qualification waqar zaka whatsapp number

Outbreak of Coronavirus in Pakistan Headlines

Outbreak of Coronavirus in Pakistan | Headlines || Pakistan confirms two more coronavirus cases

coronavirus in pakistan media, coronavirus in pakistan today new, coronavirus in pakistan by boom news




Khalil-ur-Rehman Qamar video hugging Reema Khan leaked || Khalil ur Rehman & Rema Video Scandal

Khalil-ur-Rehman Qamar video hugging Reema Khan leaked || Khalil ur Rehman & Reema Video Scandal

srytv,imran khan,sry,shahid iqbal ch,Klil ur Reham and Rema Video Scandal Viral Latest Vide Rema Scandal,Khalil ur Reham and Rema Video Scandal,Klil ur Reham and Rema Video,Khalil-ur-Rehman Qamar video hugging Reema Khan leaked,Khalil ur Rehman \u0026 Rema Video Scandal,rema video scandal,rema khan and khlil ur rehman video viral,khalil rehman and rema,khalil ur rehman and reema,khalil ur rehman qamar,khalil ur rehman qamar interview,khalil ur rehman

او میری شہزادی! خلیل الرحمان کی اداکارہ ریما کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو سامنے آ گئی
بسم اللہ،میرا قتل تمہارے ہاتھوں لکھا ہے، ریما کی سرگوشیوں پر خلیل الرحمن قمر کا جواب
ڈرامہ نگار خلیل الرحمان کی اداکارہ ریما کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو سامنے آ گئی۔تفصیلات کے مطابق معروف رائیٹر خلیل الرحمان ان دونوں ایک بار پھر خبروں کی زد میں ہیں جس کی وجہ پروگرام کے دوران ان کی سرمد ماروی کے ساتھ ہونے والی تلخ کلامی ہے۔پروگرام کے دوران خلیل الرحمان گالم گلوچ کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔
خلیل الرحمان قمر نے ماروی سرمد کو اُلو کی پٹھی، بدتمیز اور گھٹیا عورت کہا۔ خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ امریکہ میں تحقیق کر رہی ہے، بے حیائی کی تحقیق کر رہی ہے؟ تیری ایسی کی تیسی، تیرا جسم ہے کیا؟ کوئی تھوکتا تک نہیں اس پر، شکل دیکھ جا کر اپنی۔تاہم اب خلیل الرحمن کی اداکارہ ریما کے ساتھ ایک آف دی ریکارڈ ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ ریما سے بغل گیر ہوتے نظر آئے۔

جب ادکارہ ریما آتی ہیں تو خلیل الرحمن انتہائی مسکراتے ہوئے اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ او میری شہزادی آ گئی،میری جھوٹی سہیلی آ گئی۔جس کے بعد ریما حال احوال پوچھتے ہوئے ان کے کانوں میں کوئی سرگوشی کرتی ہیں جس پر خلیل الرحمان کہتے ہیں کہ بسم اللہ،میرا قتل تمہارے ہاتھوں لکھا ہے،ڈاکٹر کی باری بعد میں۔خلیل الرحمن کی اس ویڈیو پر کچھ صارفین نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خلیل الرحمن خوبصورت خواتین کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے پیش آتے ہیں اور دوسری خواتین کے ساتھ گالم گلوچ کرتے ہیں۔
دوسری جانب خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی کو لے کر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے، اور اس وقت یہ موضوع ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر جہاں خلیل الرحمان قمر کے نامناسب رویے پر تنقید ہو رہی ہے وہاں ان کے حمایتی بھی سرگرم عمل ہیں اور ان کے اس اقدام پر خوب داد دے رہے ہیں۔

Khalil ur Rehman & Marvi Dirty Fight || mera jisam meri marzi


ik sandhu hunda si full movie download full hd 1080p

Ik Sandhu Hunda Si (Punjabi Movie - 2020)

Director: Rakesh Mehta  Stars: Gippy Grewal, Neha Sharma  Genre: Action  Writer: Jass Grewal  Banner: Golden Bridge Films  Music: B Praak, Desi Crew, Jassi Katyal  DOP: Maneesh Bhatt  Distribution: Omjee Star StudioDirector: Rakesh Mehta
Stars: Gippy Grewal, Neha Sharma
Genre: Action
Writer: Jass Grewal
Banner: Golden Bridge Films
Music: B Praak, Desi Crew, Jassi Katyal
DOP: Maneesh Bhatt
Distribution: Omjee Star Studio







ik sandhu hunda si full movie download filmywap
ik sandhu hunda si full movie download filmyzilla
ik sandhu hunda si full movie download hd
ik sandhu hunda si punjabi movie download
ik sandhu hunda si movie
ik sandhu hunda si real story
ik sandhu hunda si full movie online
rakesh mehta
ik sandhu hunda si full movie watch online

Alizhe shah kissing Ehd e Wafa | Expose It & viral || Alizeh Shah Boyfriend Scandal

Alizhe shah kissing Ehd e Wafa | Expose It & viral || Alizeh Shah Boyfriend Scandal





googel ads
Alizhe shah kissing and nude pictures leaks & viral in social media || Alizeh Shah Boyfriend Scandal Alizeh shah Viral Video | Leak video2020 | Babar Baig Gujrati | Latest Video | AB HD TV l Alizay Shah Viral Video - Alizeh Shah Full Leaked Video - Alizeh shah Pics Alizeh Shah Leaked Video and Pics | Alizeh shah Viral Video | Alizeh Shah boyfriend leaked video Alizeh Shah Leaked Video and Pics,Alizeh shah Viral Video,Alizeh Shah boyfriend leaked her kissing video,Alizeh shah,Alizeh shah viral video,Alizeh shah viral picture,Alizeh shah viral picture 

and video,Alizeh shah pics,Alizeh shah scandal,Alizeh shah leake picture and video,Alizeh shah leaked full video, Alizeh shah viral full video,Ehd e wafa episode 20, Ehd e wafa alizeh shah,Alizeh shah tik tok, Trending,Alizeh shah latest news,Alizeh shah expose #AlizehShahViralVideo #AlizehShah #Maryam #srytv
Alizeh Shah Viral Video LEAKED | Alizeh Shah | Maryam Faisal | Afreen Khan


Who is Baba Kodda || BaBa Koda kon Hai || Blogger || Besharmian

Who is Baba Koda Why Delete Baba Koda Facbook Page All About This Baba koda Facebook Page information  

lala romeo, lalaromeo, besharmian, besharmiyan, besharam society, beshramsociety, social media news, news, tiktok news, facebook news, baba koda, baba kodda, who is baba koda, baba koda expose, baba koda bio, baba kodda expose, baba kodda post, hamid mir, capital talk, saleem safi, jirgga, talk shows, ancor, mubashir luqman, geo, ary, geo news, baba kodda video, blogger, blog, blogging, writting, story, stroy writer, best blooger, best blog, baba kodda best




Watch This Video Baba koda

Khatarnaak suhag raat | C5 | 13 November 2019 | SN

Khatarnaak suhag raat | C5 | 13 November 2019 | SN

All latest happenings on Crimes, Theft, Pranormal Activities and best analysis of Crime Reports at one place! The official YouTube channel for Crime Patrol. Subscribe to find out the latest news and updates, the Horror Shows and Crime Reports. Its affiliates include Express News, AbbTakk News, Aaj News, City 42, and is owned by The Dot Republic Media.

Khatarnaak suhag raat | C5 | 13 November 2019 | SN
Crime Patrol, crime, patrol, crime petrol, Crime Shows, Crime Reports, C5, SN, court number 5, Larki, Ki, Izat, Watch, Ziyadatiyan, sachi, khani, Anjaam, Bewi, Bewi Per, Bewi Per Gande, Na Paak Ilzamaat, Dard naak suhag raat, Dard, naak, suhag, raat, 13 November 2019, suhag raat, Dard naak, bewi ko dokha, Shohar ka zulum, saas ka zulum, Saas ki sazish, Suhag raat sa phelay, Khatarnaak suhag raat

Who is Mehak Malik? | Mehak Malik Life Story | Biography | Lifestyle | Cars | Net Worth



Who is Mehak Malik? | Mehak Malik Life Story | Biography | Lifestyle | Cars | Net Worth

#MehakMalik #MehakMalikDance #MehakMalikBiography
Who is Mehak Malik? | Mehak Malik Life Story | Biography | Lifestyle | Cars | Net Worth



Transgender News Anchor Marvia Malik Interview with Farah | Aplus



Transgender News Anchor Marvia Malik Interview with Farah | Aplus

Watch Full Video of Pakistan's First Transgender News Anchor Marvia Malik Interview with Farah | Ek Nayee Subah | Aplus,#MarviaMalik #NewsAnchor #FarahSadia

Transgender News Anchor Marvia Malik Interview with Farah | Aplus

-------------------------------------------------------------------- Celeb Tribe Brings you all of about Latest Pakistani Drama's Actress and actors News with Their Scandals, Weddings, Interviews & Much More... Celeb Tribe is a 1st Pakistani Celebrity news channel.

Kahin Deep Jalay - EP 03 - 17th Oct 2019 - HAR PAL GEO || Subtitle English ||



Kahin Deep Jalay - EP 03 - 17th Oct 2019 - HAR PAL GEO || Subtitle English ||

Kahin Deep Jalay - EP 03 - 17th Oct 2019 - HAR PAL GEO || Subtitle English ||

This is the story of a beautiful girl named Rida, who is the beloved sister of her three brothers and blue-eyed child of her mother. However; her innocence and good fortune make her a target of her sister-in-law’s hatred, resentment and jealousy, resulting in terrible adversity and misery for Rida. To make matters worse, her husband; who is an extremely insecure person; mistreats her as well instead of supporting her. Will Rida be able to defend her honor when it’s her closest relations who are determined on defaming her?



Written By: Qaisra Hayat Directed By: Saima Waseem Produced By: Abdullah Kadwani & Asad Qureshi Production House: 7th Sky Entertainment Cast details: Neelam Munir, Imran Ashraf, Saba Faisal, Saba Hameed, Ali Abbas, Nazish Jahangir, Hammad Farooqui Madiha Rizvi, Nida Mumtaz, Syed Areez, Ali Ansari, Hasan Noman, Bina Chaudhary, Shehzad Mukhtar Farah Nadeem #KahinDeepJalay #HARPALGEO #Entertainment

Animal Husband || Ek Na Kabil e Yakeen Sachi Kahani || Urdu Kahani ||



Animal Husband || Ek Na Kabil e Yakeen Sachi Kahani || Urdu Kahani ||

Animal Husband || Ek Na Kabil e Yakeen Sachi Kahani || Urdu Kahani ||

#urducenterplus #urdu_Story #urdu_kahani



Drama Ehd-e-Wafa | Episode 4 - 13 Oct 2019 (ISPR Official)



Drama Ehd-e-Wafa | Episode 4 - 13 Oct 2019 (ISPR Official)