Select Menu

اہم خبریں

clean-5

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Misc

Technology

نوازشریف کا ویزا مسترد کرنے کے لیے جمائما کی فیملی کی طرف سے پریشر ڈالا گیا

 جمائما کے بھائی زیک گولڈ سمتھ کنزرویٹیو پارٹی کے بڑے لیڈر ہیں، ان کی طرف سے بہت پریشر تھا۔سینئر صحافی نجم سیٹھی کا سابق وزیراعظم نوازشریف کے ویزا کی توسیع کی درخواست مسترد ہونے کے بعد بڑا دعویٰ



تازہ ترین۔ 07 اگست2021ء) مسلم لیگ ن کے قائد اور پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ویزہ میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔جس کے بعد حکومت اور ن لیگ کے درمیان لفظی جنگ ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے۔اس حوالے سے سینئر صحافی نجم سیٹھی کی جانب سے بڑا دعویٰ کیا گیا ہے۔انہوں نے ایک پروگرام کے دوران تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے براہ راست پریشر آیا ہے۔ آدھی چڑیا کی خبر یہ ہے کہ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کی فیملی کی جانب سے بھی پریشر ڈالا گیاہے۔جمائما کے بھائی زیک گولڈ اسمتھ کنزویٹو پارٹی کے اہم رہنما ہیں۔خبر تو یہی تھی کہ ان کی طرف سے بھی بہت پریشر ڈالا گیا،نجم سیٹھی نے مزید کہا کہ اگر برطانوی حکومت نے نواز شریف کی ویزہ میں توسیع کی درخواست مسترد کی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نوازشریف کو وہ ڈی پورٹ کر دیں گے۔ برطانوی ہوم آفس کی تاریخ دیکھیں تو کسی بھی سابق منتخب صدر یا وزیراعظم نے لندن میں پناہ لی ہو تو چاہے جو بھی وجہ ہو برطانوی حکومت نے کبھی انہیں ڈی پورٹ نہیں کیا۔نوازشریف کی حوالگی سے متعلق دونوں حکومتوں میں رابطے ہوئے لیکن اس کے لیے برطانیہ کے قوانین پر عمل کرنا لازم ہو گا۔انسانی حقوق کے حوالے سے برطانیہ کے قانون بہت سخت ہیں۔بھارت سے بھاگے ہوئے کئی معروف بزنس مین بھی لندن میں ہیں۔ بھارت کی حکومت بہت عرصے سے ان کی حوالگی کے لیے کوششیں کر رہی ہے لیکن برطانوی حکومت بھارت کو اس حوالے سے گھاس نہیں ڈال رہی ،اس لیے مجھے لگتا ہے کہ برطانوی حکومت نوازشریف کو پاکستان واپس نہیں بھیجے گی۔ان کی روایت ہے کہ وہ مقبول شخصیات اور منتخب رہنے والی سیاسی شخصیات کو پناہ دیتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے وہ دوبارہ اقتدارمیں آئیں گے تو ان کے ساتھ اچھے روابط ہونے چاہئیے۔نوازشریف کو برطانیہ میں ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ انہیں زبردستی واپس پاکستان بھیجا جائے گا۔نجم سیٹھی نے مزید کیا کہا ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے :

پنجاب پبلک سروس کمیشن کے پرچے فروخت کرنے والے 4 افراد گرفتار

 پنجاب پبلک سروس کمیشن کے پرچے فروخت کرنے والے 4 افراد گرفتار

محکمہ اینٹی کرپشن نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کا پرچہ لیک کرنے میں ملوث 4 ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ نجی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اینٹی کرپشن یونٹ نے لاہور میں کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کیا ہے



، گرفتار ہونے والوں میں وقار ڈیٹا آپریٹر جبکہ غضنفر نامی شخص محکمہ کا ملازم تھا ۔ محکمہ اینٹی کرپشن نے ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان لوگوں نے پہلے بھی کافی پرچے لیک کیے ہیں، ملزمان ہر پرچہ لیک کرکے اسے فروخت کیا کرتے تھے اور ہر کارروائی کے بعد کرایہ کا مکان بھی تبدیل کرلیا کرتے تھے۔ محکمہ اینٹی کرپشن کے ڈائریکٹر ویجیلنس عبدالسلام عارف نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں کامیاب ہونے والے لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے، اس حوالے سے یہ ایک حساس ادارہ ہے، لیکن ہر محکمہ کی طرح یہاں موجود کالی بھیڑوں نے بھی اس ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ عبدالسلام نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ملزمان کو پکڑنے کیلئے موک آپریشن اور اسٹنگ آپریشن کیا گیا، ملزمان سے پرچے کیلئے رابطہ کیا گیا، ایک پرچے کے بدلے15 لاکھ روپے مطالبہ کیا گیا، تاہم 8 لاکھ میں معاملات طے پاگئے، ملزمان نے ہم سے رابطہ کرنے کیلئے بار بار مختلف موبائل نمبرز کا استعمال کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جس دن پرچہ لیک کرکے دیا جانا تھا ملزمان پنجاب یونیورسٹی ہاسٹلز سے نکلے، پرچہ حاصل کرنے والے اور بہت سارے امیدواروں کو صبح چار بجے خود اپنی گاڑی میں پک کیا اور پنجاب سروس کمیشن کی جانب روانہ ہوگئے جہاں کینال روڈ پر ملزمان کی گاڑی کو روک کر انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔


Talal Ch PMLN Scandal Video with MNA Aisha Rajab Baloch Pakistani Scandal

 لیگی رہنما طلال چوہدری جھگڑے کے دوران شدید زخمی ہو گئے طلال چوہدری کے سر اور کمر پر شدید چوٹیں آئی،مختلف ہڈیاں فریکچر ہوئیں، لاہور کے نجی اسپتال میں داخل



پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری جھگڑے میں زخمی ہو گئے۔92 نیوز کے مطابق طلال چوہدری جھگڑے میں زخمی ہو گئے جس کے بعد انہیں لاہور کے نجی اسپتال میں داخل کروایا گیا ہے۔اسپتال ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ طلال چوہدری کے سر اور کمر پر شدید چوٹیں آئی ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ جھگڑے میں طلال چوہدری کی مختلف ہڈیاں بھی فریکچر ہوئی ہیں۔ طلال چوہدری کو نجی اسپتال کے ایگزیکٹو روم میں رکھا گیا ہے۔طلال چوہدری کا اسپتال میں علاج جاری ہے۔واضح رہے گذشتہ رات سے طلال چوہدری کے جھگڑے کے معاملے کے حوالے سے مختلف طرح کی باتیں گردش کر رہی ہیں تاہم ن لیگ کے کسی رہنما کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان نہیں سامنے آیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ طلال چوہدری کا جھگڑا کن لوگوں کے ساتھ اور کن وجوہات کی بنا پر ہوا۔

"شامِ غریباں"

کہانی لمبی ہے،مگر پڑھیئے ضرور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

وہ غالباً دسمبر کی ایک سرد شام تھی جب میری ملاقات پہلی دفعہ غلام حسین سے ہوئی. وہ ایک گمنام مگر بےمثال گائیک تھا اور پیشے کے لحاظ سے باٹا کا سیلزمین تھا. مجھے اپنی پسندیدہ ساخت کے جوتے خریدنا تھے مگر بہت ڈھونڈنے پر بھی اور پورا ملتان چھان ڈالنے پر بھی نا ملے.آخر خدا بھلا کرے ایک صدر میں واقعہ جوتوں کی دُکان والے کا کہ جس نے مجھے پرانے قلعہ کے قرب میں واقع باٹا کی ایک شاخ کا پتہ بتایا. میں نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو گاڑی میں بٹھایا اور چل 
پڑا۔


دسمبر میں ملتان کا روپ ہی کچھ نرالا ہوتا ہے. ڈھلتی شام کی افسردہ دھوپ جب پرانے شہر کی بےرنگ فصیلوں کو چومتی ہے تو ہر طرف ایک سنہرا غبار سا چھا جاتا ہے. گردوغبار کے بادل اور ان بادلوں کے تھکے ہوئے کندھوں پر سوار چیلیں بھی سردی سے ٹھٹھرتے نظر آتے ہیں. اس شہر پر بزرگوں اور دل والوں کا سایہ ہے. کچھ نیم تاریخی حکایات کے مطابق اسی شہر پر حملے کے دوران سکندر اعظم کی چھاتی میں ایک تیر لگا کہ جس کی وجہ سے بعد میں وہ آدھی دنیا کا فاتح موت سے ہمکنار ہوا. مجھے کچھ یوں لگتا ہے کے جیسے چھاتی میں تیر لگنے کا واقعہ استعارے کے طور پر استمعال ہوا تھا. خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ مختصر بات یہ کہ ملتان سے باہر کے لوگوں میں سے بہت کم ہیں جو اس شہر کی محبت کا شکار ہوتے ہیں. نئی سڑکوں اور پلوں کی موجودگی کے باوجود کچھ ٹوٹا پھوٹا سا شہر ہے. لہذا ٹوٹے پھوٹے لوگوں کو ہی پسند آتا ہے۔
تھوڑا بہت پوچھنا ضرور پڑا مگر آخرکار ہم باپ بیٹا اس دُکان کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے. چھوٹی سی دُکان تھی اور اسکا حلیہ دیکھ کر مجھے نہیں لگا کہ وہاں سے میری مراد پوری ہوجائے گی. خیر ڈوبتے دل کو سہارا دیا اور اندر داخل ہوگئے. ایک عام سا سیلزمین اکیلا کھڑا جھاڑ پونچھ کر رہا تھا. شخصیت اس قدر بےکشش تھی کے میں نے اسکی طرف غور سے دیکھے بغیر جوتوں کا پوچھا. اس نے انتہائی غور سے میری ہدایات سنیں
سر آپ تشریف رکھیں. میں اوپر گودام میں چیک کرتا ہوں. امید ہے کے جو جوتے آپ مانگ رہے ہیں وہ سٹاک میں موجود ہیں. بس الله کرے ناپ کے پورے ہوں.’ اس نے مستعدی سے کہا اور پھر پھرتی سے اور ‘یا علی مدد’ کہہ کر لوہے کی سیڑھیاں چڑھ کر گودام میں چلا گیا۔
میں بیٹھنے کی بجائے اپنے بیٹے کے ساتھ شو کیسوں میں سجے جاگر دیکھنے لگا. جوتے دیکھتے دیکھتے اچانک میرے کانوں میں گنگنانے کی آواز پڑی تو میں چونک گیا. کوئی بہت ہی مدھر سروں میں استاد فتح علی خان صاحب کے انداز میں ‘گھر کب آؤ گے؟’ گنگنا رہا تھا. عجیب سا درد کسمسا رہا تھا سروں میں. میرے بیٹے نے بھی سن کر میری طرف دیکھا۔
‘بابا یہ کون گا رہا ہے اور کیا گا رہا ہے؟’
شاید وہ جوتوں والے انکل ہیں. درد گا رہے ہیں اور خوب گا رہے ہیں.’ میں نے مسکراتے ہوئے اور اسکی چمکتی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جواب دیا۔


اتنے میں وہ سیلزمین بھی ایک جوتوں کا ڈبہ اٹھاے نیچے اتر آیا
‘لیجئے صاحب. میرا خیال ہے کہ آپ یہ ہی چیز مانگ رہے تھے’
جوتوں کو چھوڑو. یہ بتاؤ ابھی اوپر تم گنگنا رہے تھے؟’ میں نے بےصبری سے اوپر سے نیچے اس لڑکے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
وہ چھوٹے سے قد کا، نہایت سانولے رنگ کا اور اکہرے بدن کا جوان لڑکا تھا. گھنگریالے سیاہ بال اور بھینگی سرمہ لگی آنکھیں جن میں ذہانت کی چمک نمایاں تھی اور چمکتے ہوئے سفید مگر ٹیڑھے میڑھے دانت. کالے رنگ کا شلوار قمیض پہن رکھا تھا جو وقت کی مار کھا کھا کر اور دیسی صابن سے دھل دھل کر گہرے سرمئی رنگ کا ہوچلا تھا. کالر سے نیچے دو بٹن کھلے ہوئے تھے اور کھلے گریبان سے کچھ تعویذ جھانک رہے تھے. ایک کلائی میں پتلا سا چاندی کا کڑا چمک رہا تھا. پاؤں میں معمولی سی ہوائی چپل پہنے ہوئے تھا۔
.جی سر. میں ہی تھا. گنگانا کیا ہے بس جی خوش کر رہا تھا.’ اس نے شرماتے ہوئے کہا’
.بہت خوبصورت آواز ہے تمہاری. نام کیا ہے؟’ میں نے دلچسپی سے اسے شرماتے ہوئے دیکھا’
.سر بندے کو غلام حسین کہتے ہیں.’ اس نے نہایت انکساری سے جواب دیا’
کسی اچھے خاندان کے لگتے ہو. گانا سیکھا ہے کہیں سے کہ بس خدا کی دین ہے؟’ میں نے اسکے لب و لہجے پر غور کرتے ہوئے پوچھا۔

پتہ نہیں سر آپ اچھا خاندان کسے کہتے ہیں؟ بہرحال میرا تعلق گائیکوں کے ایک مشہور خاندان سے ہے اور میں فلانے صاحب کا نواسہ ہوں.’ اس نے ماضی کے ایک مشہور ومعروف لوک گلوکار کا نام لیا تو میں بری طرح سے چونک گیا۔
کیا کہہ رہے ہو غلام حسین؟ تم ان صاحب کے نواسے ہو؟’ میں نے حیرانی سے پوچھا: ‘تو پھر یہاں جوتوں کی دکان میں کیا کر رہے ہو؟
سر میں ان کا نواسہ ضرور ہوں مگر صرف سر ہی وارثت میں پایا ہے. لیکن وہ خود کونسا بڑی امارت میں فوت ہوئے تھے؟ بہت کسمپرسی میں انتقال ہوا انکا.’ غلام حسین نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا
.شادی شدہ ہو؟’ میں نے پوچھا’
.جی سر، مولا کے کرم سے دو بچے ہیں: سکینہ اور علی اصغر.’ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’
ماشاء الله. اس نوکری سے گزارا ہوجاتا ہے یا پھر کچھ اور بھی کرتے ہو؟’ میں نے جوتے کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔
شکر ہے پنچتن پاک کا سر. بس یہ نوکری کرتا ہوں اور محرم میں مجالس میں لوگ بلا لیتے ہیں نوحہ خوانی کیلئے. مل جل کر گزارا ہو ہی جاتا ہے.’ اس کے چہرے پر مسکراہٹ ضرورتھی مگر آواز میں غربت اور بھوک سسک رہی تھی۔
میں اور کچھ نہیں بول سکا بس جوتے خریدے، غلام حسین سے اسکا موبائل نمبر لیا اور بیٹے کو لیکر دکان سے نکل گیا. گھر تک کا سارا راستہ گاڑی کے میوزک پلیئر پر غلام حسین کے نانا مرحوم کی آواز گونجتی رہی اور میں سوچتا ہی رہا، غلام حسین کے بارے میں، اسکی درد بھری آواز کے بارے میں اور اپنے معاشرے کے بارے میں جس کو شاید ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں تھی۔
_______________________________________________
غلام حسین سے میری دوسری ملاقات میرے ایک دوست جواد کے دفتر میں ہوئی جس کا ایڈورٹائزنگ کا کاروبار تھا. میں ابھی اپنے دفتر کے کام سے فارغ ہی ہوا تھا کے اچانک اسکا فون آ گیا
کیا کر رہے ہیں سر؟ فارغ ہیں تو دفتر سے سیدھا ادھر ہی آجائیں. آپ کی ملاقات کرانی ہے ایک ہیرے سے.’ اسکی زندگی سے بھرپور آواز موبائل پر گونجی۔
.کونسا ہیرا ڈھونڈ لیا اب تم نے؟’ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا’
بس آپ پہنچنے کی کریں. ہیرے کو سنیں گے تو اسکی چمک کا احساس ہوگا.’ جواد کو میری موسیقی سے دلچسپی کا اچھی طرح سے علم تھا۔


_______________________________________________________
میں جواد کے دفتر کے سامنے گاڑی پارک کرکہ اندر داخل ہوا تو میری نظر سب سے پہلے غلام حسین پر پڑی. وہ مجھے دیکھ کر تھوڑا حیران ضرور ہوا مگر فوراً اٹھ کر میرا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔
.آپ ایک دوسرے سے پہلے ہی واقف ہیں؟’ جواد نے چونک کر پوچھا’
نا صرف واقف ہیں بلکہ چمک کا بھی اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے.’ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور جواد کو جوتوں کی دوکان کی داستان سنا ڈالی۔
جواد کے پاس بیٹھے غلام حسین سے تفصیلاً گپ شپ لگی تو اسکے حالات کا کچھ بہتر طریقے سے اندازہ ہوا. بہت ہی غریب آدمی تھا. جواد کے کسی دور کے رشتے دار کا جاننے والا تھا اور اسکے پاس بھی اس لیے آیا تھا کے ریڈیو پاکستان میں کوئی سفارش ہوجائے. خیر اس بیچارے کا کام ہوگیا. جواد کی تھوڑی واقفیت تھی ریڈیو پاکستان میں. وہ کام آگئی۔
وہیں بیٹھے تھے کے سُروں کی بات چھڑ گئی۔’
تمہیں اور تمہارے خاندان کو الله نے، سرکی دولت سے نوازا ہے غلام حسین. مجھے افسوس ہے کہ ہمارا معاشرہ اسکی قدر نہیں کر سکا.’ میں نے سنہری چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا
سر دولت نہیں ہے سر. بلکہ ایک امتحان ہے. بس میری دعا ہے کے مولا مجھے اس امتحان میں پاس کر دے.’ اس نے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا
.امتحان کیسے غلام حسین؟’ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا’
الله کی ہر نعمت امتحان ہوتی ہے سر. وہ بس پرچہ ترتیب دیتا ہے. جواب تو ہم نے دینا ہوتا ہے. وہ پوچھے گا کہ ہاں بھائی غلام حسین! بھلا کیسے استمعال کیا تم نے ہماری دی نعمت کا؟ تو جواب تو ہونا چاہیے نا اچھا سا؟’ اس نے مجھ سے پوچھا
ہاں بالکل.’ میں نے اقرار میں سر ہلایا اور پوچھا: ‘تو پھر تم کیا جواب دو گے؟ کیسے استمعال کرتے ہو سروں کو؟
میں؟’ غلام حسین کی آنکھیں کسی اندرونی جذبے کی حدّت سے چمکنے لگیں. ‘میں سر…..میں کہوں گا الله تعالی، میں نے جو بھی گایا، تیرے حبیبﷺ کے نواسے کی محبت میں گایا. اس سے بہتر کیا استمعال کرتا تیرے دیے سر کا؟
.ہوں!….ٹھیک. پھر اللہ کیا کہے گا؟’ میں نے اسکی سادگی اور محبت کو ادب سے دیکھتے ہوئے کہا’
پھر الله نے کیا کہنا ہے؟ یہ ہی کہے گا کہ ٹھیک ہے جاؤ غلام حسین. تم بخشے گئے ہو.’ اس نے سرشار ہو کر بند آنکھوں کے ساتھ کہا۔
اچھا یہ مجھے بتاؤ غلام حسین کہ یہ تم لوگ ماتم کیوں کرتے ہو؟ مجھے کچھ تم لوگوں کا رونا پیٹنا سمجھ نہیں آتا. مذہب میں بھی غالباً اسکی گنجائش نہیں.’ میں نے احتیاط سے پوچھا. میں جاننا چاہتا تھا کے غلام حسین اس بارے میں کیا خیالات رکھتا ہے


ماتم؟ واقعہ کربلا پرماتم تو ہر مسلمان کو کرنا چاہیے سر.’ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ‘حسین معمولی آدمی نہیں تھے. وہ نواسہ رسولﷺ تھے. نبیﷺ کے پیارے تھے. حضورﷺ جب نماز پڑھتے تو حسن و حسین کندھوں پر سواری کیا کرتے تھا انکی. اب آپ بتائیں کیا کسی اور کو یہ مرتبہ حاصل تھا؟ نبیﷺ کے پیارے کو، راج دلارے کو، مار دیا ان ظالموں نے. تو رونے کی، ماتم کرنے کی بات تو ہے نا یہ؟ اگر حضورﷺ کے دکھ پر بھی نا روے تو روز قیامت کس منہ سے ان سے شفاعت کی امید رکھیں گے؟
غلام حسین کی معصوم حیرت مگر بامعنی دلیل نے مجھے شرمندہ کر دیا. خیر باتیں چلتی رہیں. چائے چلتی رہی. بلا شبہ وہ ایک منفرد انسان تھا. وقت کا احساس تب ہوا جب قریبی مسجد کے لاؤڈسپیکر پر مغرب کی اذان گونجی. میں نے چونک کر گھڑی دیکھی اور پھر اٹھ کر جواد سے اجازت لی. نکل ہی رہا تھا کہ غلام حسین نے بھی راستے میں بس اسٹاپ پر اتارنے کی گزارش کر ڈالی. اسکو بھی ساتھ لے لیا۔
باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھ ہی رہے تھے کے آسمان پر بادل گرجے اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنی شروع ہوگئ. میرا دل نہیں کیا کے میں سردیوں کی بارش میں غلام حسین کو بس اسٹاپ پر ہی اتار دوں. میں نے اسے گھر اتارنے پر اصرار کیا تو بیچارا گھبرا کر کہنے لگا
‘میرا گھر اندررون بوہڑ گیٹ میں ہے سر. تنگ تنگ گلیاں ہیں. آپکی گاڑی کا حشر خراب ہوجائے گا’
کوئی بات نہیں یار.’ میں نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا. ‘اور تو کوئی خدمت کر نہیں سکتا تمھاری. یہ ہی سہی۔
وہ راستہ بتاتا رہا اور میں ڈرائیونگ کرتا رہا. واقعی بہت گنجان علاقہ تھا. تنگ وتاریک گلیاں تھیں. ٹریفک زیادہ ہوتی تو گزرنا محال ہوتا مگر میں خاموشی سے بارش کا شکریہ ادا کرتا رہا کے جسکی وجہ سے بہت رش نہیں تھا. آخر ایک گلی کے سامنے غلام حسین نے گاڑی رکوا دی
بس یہیں روک لیں سر. اسی گلی کے آخر میں میرا گھر ہے. گاڑی یہیں پارک کر دیں. میرے ساتھ چل کر گھر پر چائے کا ایک کپ پی لیں. یقین مانیں، میں اسے اپنے لئے بڑی عزت کی بات سمجھوں گا۔
میں جلدی واپس گھر پہنچنا چاہتا تھا مگر اسکے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کے میں انکار نا کرسکا. گاڑی وہیں ایک پان سگریٹ کے کھوکے کے سامنے کھڑی کردی، جس کا مالک غلام حسین کا جاننے والا تھا. گلی میں داخل ہوئے تو اونچی دیواروں اور سٹریٹ لائٹ کے نا ہونے کے سبب تاریکی کا احساس کچھ اور بڑھ گیا. مگر کچھ دور ہی چلے ہوں گے کے اس کا مکان آ گیا
سر آپ ایک منٹ یہیں ٹہریں. میں اندر اطلاع کر دوں.’ غلام حسین نے کہا اور پھٹا پرانا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوگیا۔
میں نے مکان کا جائزہ لیا. بالکل سامنے ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کی صدر محراب پر جلتے پیلے بلب سے کچھ روشنی موجود تھی. ننگی اینٹوں کی دیواروں والا چھوٹا سا گھر تھا جو دونوں اطراف سے پڑوس کے مکانوں سے متصل تھا. لکڑی کا دروازہ پردے سے ڈھکا ہوا تھا اور چونکہ گلی کے فرش سے اونچا تھا تو دو تین سیڑھیاں بھی موجود تھیں جن کے درمیان میں ایک سیمنٹ سے بنی ڈھلان بنی ہوئی تھی. غالباً سائیکل یا موٹر سائیکل چڑھانے کیلئے بنائی گئی تھی. مکان کی دیواروں پر جگہ جگہ بڑے بڑے حروف میں کچھ لکھا ہوا تھا. پہلے تو میں نے دھیان نہیں دیا کہ شاید حسب معمول کسی حکیمی دوائی کا اشتہار ہوگا. لیکن جب ادھر ادھر نظر ڈالی تو احساس ہوا کے لکھائی صرف غلام حسین کے گھر کی دیواروں پر تھی. ارد گرد کے تمام گھروں کی دیواریں بالکل صاف تھیں۔.
میں نے آنکھیں پھاڑ کرپڑھنے کی کوشش کی تو پتا لگا ‘شیعہ کالا کافر ہے.’ لکھا ہوا تھا. ایک لمحے کیلئے تو میرا پارہ چڑھ گیا. ‘مذاق بنا لیا ہے اس قوم نے. برداشت بالکل ختم ہوگئی ہے.’ میں نے کھولتے ہوئے سوچا۔
اسے چھوڑیں سر. بچے شرارت سے لکھ گئے ہیں.’ غلام حسین نے باہر نکل کر مجھے لکھائی کی طرف گھورتے ہوئے دیکھا تو مسکرا کر کہا. ‘آئیں اندر چلیں
عجیب شرارت ہے؟ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے لکھنے کی؟’ میں غصے میں بڑبڑایا اور پھر سر جھٹک کر اس کے پیچھے اندر بڑھ گیا۔
عجیب بات یہ تھی کے محلے میں تو بجلی موجود تھی مگر غلام حسین کے گھر میں بالکل اندھیرا تھا. روشنی صرف اسکے ہاتھ میں پکڑی لالٹین سے آ رہی تھی. خیر میں نے کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا. میرا خیال تھا کے شاید غریب بل نا جمع کرا سکا ہو اور محکمے نے بجلی کاٹ دی ہو. ایک چھوٹی سی راہداری سے گزر کر ہم ایک مختصر سے صحن میں پہنچ گئے. فرش پر پرانے سٹائل میں سیاہ اور سفید ٹائلیں لگی تھیں، صحن کے دونوں اطراف کمرے تھے. ایک کمرے کے اوپر پرچھتی ڈلی تھی. میرے بالوں پر پانی کے کچھ قطرے گرے تو میں نے اوپر دیکھا. صحن کے بالکل اوپر چھت میں ایک چھ فٹ ضرب چھ فٹ کا مربع شکل میں سوراخ کھلا ہوا تھا جس کے اطراف میں لکڑی کی جالیاں لگی تھیں۔
السلام علیکم انکل!’ کی آواز کورس میں گونجی تو میں نے مڑ کر دیکھا. دو صاف ستھرے بچے کھڑے تھے. ایک شاید پانچ ساڑھے پانچ سال کی بچی اور دوسرا ایک تقریباً چار سال کا لڑکا. ‘ہوں!….تو یہ ہیں سکینہ اور علی اصغر.’ میں نے دونوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور انکا نام لیا تو وہ حیرت سے پہلے شرمایے اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
بہت مزے کی چائے بنائی تھی غلام حسین کی بیوی نے. ساتھ چنے کی دال کی مٹھائی تھی اور آلو کے خستہ پکوڑے. مزہ آ گیا. میں پندرہ بیس منٹ بیٹھا اور پھر غلام حسین کے بیحد منع کرنے پر بھی اس کے بچوں کے ہاتھ میں تھوڑے سے پیسے تھما کر جانے کو اٹھ کھڑا ہوا۔
___________________________________________
گھر سے باہر نکلے تو بارش تھم چکی تھی
چلو اچھا ہے، بارش تھم گئ. تمہارا گھر تو پرانا ہے. چھتیں ٹپکنے سے بچ گئیں.’ میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے غلام حسین سے کہا۔
چھتیں ٹپکنے سے تو ہمارا پانی پورا ہوتا ہے سر. بارش نا ہو تو پڑوسیوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں. کبھی ترس کھا کر پانی دے دیتے ہیں، کبھی نہیں. مرضی کی بات ہے.’ اس نے کہا تو میں چونک گیا
‘کیوں؟ تمہارے گھر کمیٹی کا پانی نہیں آتا غلام حسین؟ اور ہاں بجلی کیوں نہیں آ رہی تمہارے گھر؟’
چھوڑیں سر. لمبی کہانی ہے. پھر کبھی سناؤں گا. ابھی آپ گھر سے لیٹ ہورہے ہیں.’ اس نے ایک افسردہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
میں کچھ پوچھنے ہی لگا تھا کے سامنے مسجد کے صدر دروازے سے تین چار نوجوان نکل آئے. کپڑوں اور سر پر بندھی مخصوص رنگ کی پگڑیوں سے اندازہ ہورہا تھا کے ان کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے ہے. مجھے اور غلام حسین کو دیکھ کر اچانک رک گئے اور آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے. پھر وہ ہماری طرف بڑھے ہی تھے کے غلام حسین نے اچانک مجھے دھکیلتے ہوئے کہا
‘آپ اب چلیں سر. بہت دیر ہوچکی’
مجھے اس کا اس طرح سے دھکیلنا عجیب تو بہت لگا مگر پھر کچھ سوچ کر میں نے قدم بڑھایا ہی تھا کے ایک کرخت آواز نے قدم روک لیے
‘تو نے مکان نہیں چھوڑنا شیعہ کی اولاد؟’
میں نے مڑ کر دیکھا تو ان نوجوانوں میں سے ایک آگے بڑھ کر ہم سے مخاطب تھا
.میرے مہمان آئے ہیں. انکو رخصت کرکے آتا ہوں. پھر بات کرتا ہوں آپ لوگوں سے.’ غلام حسین نے گھبرا کر کہا’
.اوئے تیرے مہمان کی ایسی کی تیسی.’ ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر غلام حسین کو گریبان سے پکڑ لیا’
.کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو؟’ میری دخل اندازی ضروری ہوچکی تھی’
.تمہیں اس سے کیا؟ تم کون ہو؟ شیعہ ہو یا سنی ہو؟’ اس لڑکے نے بڑی بدتمیزی سے مجھ سے پوچھا’
میں جواب تو یہ دینا چاہتا تھا کہ نا شیعہ ہوں، نا سنی، نا مسلمان، بس انسان ہوں. لیکن پھر معاملے کی نزاکت کو مدِنظر رکھ کر بولا: ‘سنی ہوں. لیکن کیا بات ہے؟ تم لوگ اس غریب کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟
سنی ہو تو اس کافر کے گھر کیا کرنے آئے ہو؟’ ایک اور نوجوان نے اگے بڑھتے ہوئے کہا اور پھر غلام حسین کی بیوی کے کردار کے بارے میں ایسی بیہودہ بات کی کہ میرا خون کھول اٹھا. خیر وہ چار تھے اور ہم دو. میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ انہیں گھورتا رہا۔
تم جاؤ اپنا کام کرو بابو. ہمیں اپنا کرنے دو.’ ان کے لیڈر نے شاید میرے لباس سے میری حیثیت کا تھوڑا بہت اندازہ لگا لیا تھا۔
غلام حسین میرا دوست ہے. میں اس کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا. پہلے تم بتاؤ کہ بات کیا ہے؟’ میں نے آرام سے اس سے پوچھا
دوست ہے تو اس کو سمجھاؤ. یہ مسلمانوں کا محلہ ہے. یہاں اسکی اور اسکے بچوں کی کوئی گنجائش نہیں. ہم زیادہ انتظار نہیں کریں گے.’ ان نوجوانوں کے لیڈر نے غرا کر کہا اور پھر ہم دونوں کو سر سے پاؤں تک نفرت سے گھور کر باقی لڑکوں کو لیکر وہاں سے چلا گیا۔
.یہ کیا معاملہ ہے غلام حسین؟’ میں کچھ کچھ بات سمجھ چکا تھا لیکن پھر بھی اس سے پوچھا’
کیا بتاؤں سر؟ ہم پچھلی کئی دہائیوں سے اس محلے میں رہتے آ رہے تھے. کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا. مگر پچھلے سال ہی مسجد کے پرانے امام صاحب کا انتقال ہوگیا. بہت نیک اور فرشتہ صفت انسان تھے. ان کے انتقال کے بعد مسجد پر ایک سنی انتہاء پسند گروپ نے قبضہ کر لیا ہے. ان سے محلے میں ایک شیعہ کا وجود برداشت نہیں ہوتا. شاید میں نوحے اور نعتیں نا پڑھتا ہوتا تو کسی کو میرے شیعہ ہونے کا پتا نہیں چلتا. لیکن کیا کروں؟ ہم غریبوں کا گزارا تو ہوتا ہی سُر کی کمائی پر ہے. جب انکو میرے شیعہ ہونے کا پتہ چلا تو پہلے تو صرف مجھے مسجد میں نعتیں پڑھنے سے روکا، لیکن اب کچھ مہینوں سے انکی زیارتیاں حد سے بڑھ چکی ہیں. بجلی اور پانی دونوں زبردستی کاٹ دیے ہیں. بچے اور بیوی باہر نکلتے ہیں تو دھمکیاں دیتے ہیں. میرے بچوں نے تو ڈر کے مارے اسکول جانا ہی چھوڑ دیا ہے سر.’ غلام حسین کی آواز بے بسی کی نمی سے دھندلا گئ
.’چاہتے کیا ہیں یہ؟’ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا’
چاہنا کیا ہے سر؟ بس کہتے ہیں یہ محلہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جاؤ. اب آپ بتائیں میں غریب اس آبائی گھر کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ اور کیا گارنٹی ہے کہ جہاں جاؤں گا، وہاں سے نہیں نکالا جاؤں گا؟’ اس بیچارے نے قمیض کے دامن سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
.تم نے اپنے کسی مذہبی لیڈر سے بات کی؟’ میں نے افسوس سے پوچھا’
بہت لوگوں سے بات کی سر. بہت سوں سے مدد کی درخواست بھی کی. لیکن کسی کو مجھ سے غرض نہیں ہے. بس محرم میں نوحے سن کر ہائے ہائے کریں گے، میری جیب میں چار پیسے ڈالیں گے اور بس.’ غلام حسین نے سر اٹھا کر میری آنکھوں میں جھانکا: ‘آپ میری کوئی مدد کریں سر. آپ کے دوستوں میں تو پولیس والے اور ضلعی انتظامیہ والے بھی ہوں گے. آپ ان سے بات کریں سر. میں اور میرے بیوی بچے ساری زندگی آپ کے پاؤں دھو دھو کر پیئیں گے.’ اس نے بیچ گلی میں میرے پاؤں پکڑنے کی کوشش کی
کیا کرتے ہو غلام حسین؟ تم فکر نا کرو. میں کل ہی کسی سے بات کرتا ہوں.’ میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا

گھر تک کا سارا راستہ اسی سوچ بچار میں گزرا. گھر جا کر بیوی سے بات کی تو وہ بولی
گھر کے پیچھے سرونٹ کوارٹر کب سے خالی پڑا ہے. آپ کل جا کر ان غریبوں کو یہاں لے آئیں. میں اسکے بچوں کو اپنے بچوں کے اسکول میں داخل کروا دوں گی. یہاں انکو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔
بیوی کی بات میرے دل کو لگی اور میں نے دل ہی دل میں اگلے دن جواد کے ذریعے غلام حسین کو منانے کا ارادہ کرلیا۔
____________________________________________
اگلے دن میں نے دفتر کا کام جلدی جلدی سمیٹا اور جواد کی طرف جانے ہی لگا تھا کے وہ خود آن پہنچا۔
بھائی بہت لمبی عمر ہے تمھاری. میں تمھاری ہی طرف آنے کے بارے میں سوچ رہا تھا.’ میں نے اسکے دفتر میں داخل ہوتے ہی کرسی سے اٹھ کر کہا. لیکن پھر چونک کر رک گیا۔
جواد کا حال بہت خراب تھا. چہرے پر تاسف اور سراسیمگی، ہونٹوں پر پپڑیاں، بال بکھرے ہوئے اور سرخ ہوتی آنکھوں میں آنسو۔
کیا ہوا جواد؟ خیر تو ہے؟’ میں نے اسکو کرسی پر بٹھاتے ہوئے اور پانی کا گلاس اسکے سامنے سرکاتے ہوئے کہا
.کچھ نا پوچھیں بھائی. بہت بڑا ظلم ہوگیا آج.’ اس نے بالوں کو انگلیوں سے بھینچتے ہوئے کہا’
‘کچھ بتاؤ تو پتا چلے.’ میں نے پریشانی سے پوچھا: ‘گھر پر سب ٹھیک ہے؟’
‘میرے گھر پر سب ٹھیک ہے مگر بیچارا غلام حسین اپنے پورے خاندان سمیت ختم ہوگیا’
.کیا کہہ رہے ہو؟ یہ کیسے ہوا؟ کیا ہوا؟’ مجھے ایک لمحے کو جواد کی بات پر یقین نہیں آیا’
جواد نے پانی کے گلاس کو ایک ہی سانس میں خالی کیا اور پھر مجھے پوری تفصیل سے آگاہ کیا۔
غلام حسین کا مینیجر اسکے گھر کے قریب ہی رہتا تھا. روز صبح دوکان پر جاتے ہوئے وہ غلام حسین کو بھی ساتھ موٹر سائکل پر بٹھا کر لے جاتا. اسطرح اسکا کرایہ بھی بچ جاتا اور وہ دکان پر بھی ٹائم پر پہنچ جاتا. اس دن بھی مینیجر غلام حسین کو حسب معمول لینے کیلئے آیا مگر بڑی دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود کوئی نہیں نکلا. لیکن دروازہ اندر سے بند نہیں تھا. اسکو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تو وہ اندر داخل ہوا. اندر سب کچھ خون میں لت پت تھا. غلام حسین کا سر کاٹ کر بیت الخلاء میں پھینکا ہوا تھا. اسکی بیوی اور بچوں کو بھی انتہائی بیدردی سے ذبح کر دیا گیا تھا. پولیس نے کمال فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نامعلوم افراد کے نام پرچہ کاٹ دیا تھا. لاشیں نشتر ہسپتال کے مردہ خانے میں پوسٹ مارٹم کا انتظار کر رہی تھیں۔
میں نے اور جواد نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر جلدی جلدی پوسٹ مارٹم کروایا اور مییتیں لیکر غلام حسین کے گھر پر آ گئے. ارادہ تھا کےرات عشاء کے فوری بعد تدفین کر دی جائے گی. تھوڑے بہت رشتےدار اکٹھے تھے اور جو تھے وہ بھی ڈری ڈری نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے. میرے لئے بہت بڑا واقعہ تھا اور ان چار جنازوں کی طرف دیکھتے ہی میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے تھے. لیکن کسی نا کسی طرح میرا ضبط قائم تھا.
جنازے گھر سے نکلے تو بس گنتی کے سولہ افراد جنازے میں شامل تھے. وہ بھی بس واسطے دے دے کر پورے کئے کہ اس کے بغیر چار جنازے اٹھانا ممکن نہیں تھا. ابھی گھر کے دروازے پر ہی تھے کے موسلادھار بارش شروع ہوگئ. جواد نے تھوڑا انتظار کرنے کی بات کی تو میں نے اسے سمجھایا کہ انتظار کیا تو وہ چودہ افراد بھی کسی نا کسی بہانے سے نکل جائیں گے. اسی بحث کے دوران میری نظر سامنے پڑی تو مسجد کے دروازے پر کچھ بےحس لوگ پیلے بلب کی روشنی تلے کھڑے، چپ چاپ ہماری طرف دیکھ رہے تھے. لیکن ان میں پچھلے دن والا کوئی لڑکا شامل نہیں تھا۔
.آئیے. آپ بھی کندھا دے دیں.’ میں نے مسجد کے دروازے پر کھڑے افراد کو دعوت دی’
.شیعہ کا جنازہ ہے.’ ایک مولانا نے تھوڑا گھبرا کر کہا تو میرا ضبط جواب دے گیا’
.جنازے یہیں گلی میں رکھ دو.’ میں نے اپنی پارٹی کو کہا’
یہ شیعہ کا جنازہ نہیں ہے. خانوادہ رسولﷺ کا جنازہ ہے. ‘ میں نے مسجد کے سامنے کھڑے افراد کو سرد آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تو ان میں سے دبی دبی ‘لاحول ولا قوت! ‘لاحول ولا قوت!’ کی آوازیں بلند ہوئیں
کیوں یقین نہیں آیا میری بات پر؟’ میں نے بےقابو ہوتے ہوئے کہا. جواد نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روکنے کی کوشش کی مگر میں نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔
یہ دیکھو!’ میں نے سب سے پہلی میّت کے چہرے سے کفن اٹھایا اور مولانا کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسکو دیدار کروایا: ‘یہ غلام حسین نہیں، حسین ہے. بس سر نیزے پر نہیں چڑھا۔
یہ دیکھو!’ میں نے ایک اور خاموش تماشائی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور دوسری میّت کے منہ سے کفن ہٹایا: ‘یہ علی اصغر ہے. اس کا خون سے لت پت کفن دیکھو۔
اور یہ باقی دونوں جنازے…….’ میں نے غلام حسین کی بچی اور بیوی کے جنازوں کی طرف اشارہ کیا: ‘یہ دونوں جنازے سکینہ اور زینب کے ہیں


مسجد کے سامنے کھڑا پورا گروہ شرمساری سے سر جھکائے کھڑا تھا۔
یہ محلہ نہیں کربلا کا میدان ہے. پانی تم لوگوں نے بند کر دیا ان غریبوں کا. تم لوگ یزید سے بھی بدتر ہو. اس نے تو صرف سکینہ کے کان سے بالیاں کھنچوائیں تھیں اور زینب کو بےپردہ کیا تھا. تم لوگوں نے تو جان سے ہی مار دیا۔
مجھے اچانک پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں نے وہیں برستی بارش میں زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مارمار کر رونا شروع کر دیا۔
.بس کریں بھائی جان. مت روئیں.’ جواد نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چپ کرانے کی کوشش کی’
میں کیوں نا روؤں جواد؟ میرے رسولﷺ کا خانوادہ ختم کیا جا چکا ہے. میں روز قیامت کیا منہ دکھاؤں گا؟’ میں نے آنسوؤں کی دھند میں سے جواد کو ڈھونڈھتے ہوئے پوچھا تو وہ بھی خود پر قابو نا پا سکا اور رو پڑا۔
پورا مجمع خاموش تھا۔
بس شام غریباں میں ہم دو نفوس شامل تھے۔

کورونا کو ڈرامہ قرار کہنے والے مجھ سے سارا پیسہ لے لیں،میرا بیٹا واپس کر دیں

میڈیکل سٹوڈنٹ سلمان طاہر کورونا کا شکار ہو کر انتقال کر گئے سلمان طاہر ایم بی بی ایس کے آخری سال کے طالب علم تھے،کورونا سے متاثرہ لیڈی ڈاکٹر ثناء فاطمہ جاں بحق ہو گئیں۔

Doctor Salman MBBS Final Year Student Allak ko Payaray Ho gay Covid 19 Latest Pakistani News SRY TV
29 مئی2020ء) ایم بی بی ایس کے آخری سال کے طالب علم سلمان طاہر کورونا وائرس کا شکار ہو کر جہان فانی سے کوچ کر گئے۔تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس دنیا بھر میں طبی عملے کو بھی متاثر کر چکے ہیں۔آج بھی شعبہ میڈیکل سے تعلق رکھنے والا نوجوان کورونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گیا۔سلمان طاہر ایم بی بی ایس کے آخری سال کے طالب علم تھے۔ سلمان طاہر راشد لطیف میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھے۔سلمان طاہر کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں وینٹیلیٹر پر بھی رہا،ان کی صحتیابی کے لیے سوشل میڈیا پر بھی دعاؤں کی اپیل کی گئی تھی تاہم اب بتایا گیا ہے کہ وہ اس مہلک وائرس کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر سلمان طاہر کی تصاویر بھی وائرل ہو رہی ہیں جس نے دیکھنے والوں کو آبدیدہ کر دیا۔
Five doctors have lost their lives to coronavirus, two from Lahore and one from Gujranwala, Peshawar and Faisalabad each. The MS of Lahore General Hospital has also contracted the virus and gone into isolation.  According to details, the doctors from Lahore who lost their lives to coronavirus are Sana Fatima and Salman Tahir. Dr. Sana Fatima was an FCPS doctor while Salman Tahir was an MBBS 4th year student.  Sana Fatima, the 39-year-old senior doctor working in a private laboratory, had been undergoing treatment in the ICU of a private hospital since May 20 but could not recover from the deadly virus.
اسی طرح کورونا وائرس میں مبتلا ہوکر مقامی اسپتال میں زیر علاج لیڈی ڈاکٹر ثناء فاطمہ جاں بحق ہو گئی۔ترجمان محکمہ صحت پنجاب کا کہنا ہے کہ لیڈی ڈاکٹر ثناء فاطمہ کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا اور وہ مقامی اسپتال میں زیر علاج تھیں۔

On the other hand, Salman Tahir, an MBBS fourth year student of a private medical college in Lahore, was admitted due to high fever, but due to high viral load of the virus, he died in the ICU of a private hospital within 24 hours.  Dr. Salman Tahir’s father Prof. Tahir Saleem is in charge of the pediatric ward in a private hospital while his mother Dr. Shabana is a gynecologist in a private hospital.
کورونا کو ڈرامہ قرار کہنے والے مجھ سے سارا پیسہ لے لیں،میرا بیٹا واپس کر دیں پورے لاک ڈاؤن کے دوران بیٹا صرف آدھے گھنٹے کے لیے گھر سے باہر نکلا،خدارا کورونا کو سنجیدگی سے لیں،بیٹے کے انتقال پر میں اپنے شوہر سے گلے لگ کرغم ہلکا بھی نہیں کر سکتی،72 گھنٹے 21 سالہ بیٹے کو تکلیف میں دیکھنے والی ڈاکٹر شبنم کی گفتگو

ہزارہ ٹاؤن میں مشتعل ہجوم نے نوجوان کوبہیمانہ تشدد کر کے قتل کر دیا

Another doctor lost his life from the virus In Faisalabad. Former city president of Pakistan Islamic Medical Association, Dr. Syed Nasir Ali succumbed to the virus after falling ill three days ago. Dr. Nasir was running a private medical clinic in Faisalabad.  Meanwhile, Dr Naeem Akhtar of Gujranwala has also died due to coronavirus. He was working as a psychologist at the Social Security Hospital in Lahore and was being treated at Services Hospital. PMA Gujranwala observed Black Day expressing grief over the death of the senior doctor.
دو روز قبل ایم بی بی ایس کے آخری سال کے طالب علم سلمان طاہر کورونا وائرس کا شکار ہو کر جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ان کی والدہ ڈاکٹر شبنم طاہر کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا سلمان طاہر بالکل صحت مند تھا۔آج کل جو باتیں کی جارہی ہیں کہ کورونا ان لوگوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے جن میں پہلے سے بیماریاں ہوں ، یہ درست نہیں۔ سلمان طاہر ایک صحت مند نوجوان تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کھیل کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا تھا۔اس کے کئی خواب تھے،میرا بیٹا لاک ڈاؤن کے دوران بھی گھر میں رہا صرف ایک یا دو بار افطاری کے بعد گھر سے باہر نکلا،لیکن اس دوران بھی اس کی کسی ایسے شخص سے ملاقات نہیں ہوئی جس میں کورونا کی علامات پائی گئی ہوں۔ سلمان چاند رات کو دو گھنٹے کے لیے گھر سے باہر نکلا۔
Lastly, there are reports that a doctor suffering from coronavirus has also died in Peshawar. The deceased doctor belonged to a private hospital in Hangu, Khyber Pakhtunkhwa.

اس وقت تک سلمان میں کورونا کی کوئی علامات نہیں تھی۔عید کی صبح نہیں اٹھا تو اس نے بتایا کہ مجھے سر میں درد ہو رہا ہے۔بچے کو بخار ہونے پر میں نے اسے آئسو لیٹ کر دیا۔اس کے بعد اس کی گردن بھی اکڑنے لگی، جس پر ہمیں گردن توڑ بخار کا شک ہوا۔رپورٹس میں گردن توڑ بخار کی تصدیق ہوئی۔اس کے بعد کورونا ٹیسٹ کیا گیا جو کہ مثبت آیا۔ اس کے بعد سلطان کی طبعیت خراب ہو گئی۔ کورونا کی وجہ سے انتقال کرنے والے نوجوان میڈیکل سٹوڈنٹ سلمان طاہر کی والدہ ڈاکٹر شبنم طاہر نے رو رو کر لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کورونا وائرس کا سنجیدگی سے لیں۔ڈاکٹر شبنم طاہر کا کہنا ہے کہ میں جب پڑھتی ہوں کورونا ایک ڈرامہ ہے، کورونا کے بدلے پیسے ملتے ہیں، مجھ سے آج سب کچھ لے لیں میرا بیٹا واپس کر دیں۔ میرا خواب واپس کر دیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے کہ کورونا سازش ہے۔


Hareem Shah and Fiaz ul Hasan Chohan ke new video || latest press conference about Hareem Shah

Hareem Shah and Fiaz ul Hasan Chohan ke new video || latest press conference about Hareem Shah

srytv,shahid iqbal ch,sry,imran khan,Hareem Shah and Fiaz ul Hasan Chohan ke new video latest byan Fiaz ul Hasan Chohan,hareem shah new video,hareem shah and fiaz ul hassan chohan new video,latest video hareem shah and fiaz ul hassan chohan,full and new video hareem shah 2020,viral videos hareem shah 2020,latest update hareem shah news today,latest press conference about Hareem Shah,press conference fiazul hassan chohan about hareem shah activity




Bhola Record Latest Video with Hareem Shah || Bhola Record Viral Video

srytv,shahid iqbal ch,imran khan,sry,Bhola Record Latest Video with Hareem Shah,Bhola Record Expose Hareem Shah,Bhola Record NY Hareem Shah ke Video Leak kar de,bhola record,bhola record with hareem shah,bhola record new video,Bhola record say about hareem shah,hareem shah video leaked with bhola record,bhola record 5000 dirham,bhola record ny hareem shah ke video viral,hareem shah or bhola record ke video viral

Top 5 strongest armies in the Islamic world || Most Powerful Islamic country in the world 2020

Top 5 strongest armies in the Islamic world || Most Powerful Islamic country in the world 2020 #Top5 #strongestarmies #Islamicworld

طاقتور ممالک کی پہچان طاقتور افواج سے ہوتی ہے۔ جس قدر طاقتور اور مستحکم کسی ملک کی فوج ہوگی اسی قدر وہ ملک بھی طاقتور اور مستحکم ہوگا۔ دنیا میں موجود طاقتور ترین اور مستحکم معیشت کے حامل ممالک کی افواج بھی اسی قدر مستحکم اور طاقتور ہوتی ہیں، دنیا بھر میں موجود ممالک اپنے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔



اسی طرح دنیا میں پچاس سے زائد اسلامی ممالک موجود ہیں، اور ان میں سے کئی ممالک بہترین افواج کے حامل ہیں۔ یہ اسلامی ممالک بھی خطیر رقم سالانہ اپنے دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔
مسلم ممالک کی افواج میں موجود پانچ بہترین افواج کا آج ہم ذکر کریں گے، ان افواج کی ترتیب ان کی تنظیم، ان کے کردار اور ان کے پاس موجود اسلحہ کی تعداد اور جدید ٹیکنالوجی کو مدنظررکھ کر بنائی گئی ہے۔
عموما لوگ اس بحث میں پڑ جاتے ہیں کہ کون سے اسلامی ممالک کی فوج ذیادہ طاقتور ہے اور کون سے ملک کی کم، تو یہ معلومات ان کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہوگی۔
 اس وقت اسلامی دنیا میں پانچ بہترین افواج میں جن ممالک کی افواج کا شمار ہوتا  ہے وہ درج ذیل ہیں،
 ترکی
 ترکی عالم اسلام کا چمکتا دمکتا ستارہ اور ترقی کی راہ پر گامزن قدیم اسلامی ملک ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ترکی نے بہت سارے مدوجزر دیکھے ہیں مگر اس کے باوجود آج ترکی دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی باعث ترکی کا شمار اسلامی دنیا کی سب سے بہترین اور طاقتور افواج میں سب سے پہلے ہوتا ہے۔ ترکی کی افواج کا دنیا میں قیام امن کے لئے بھی ایک لازوال کردار موجود ہے، اور افواج ترکی اس وقت نیٹو افواج کا بھی حصہ ہیں۔

ترکی کے فوجیوں کی کل تعداد سات لاکھ پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے ۔ترکی کی فضائیہ کے پاس تقریبا 1060 ایئرکرافٹ موجود ہیں، اور افواج ترکی کے پاس لڑاکا ٹینکوں کی تعداد 3200کے قریب ہے۔ ترکش نیوی کے اثاثہ جات میں 190 سے زائد مختلف جنگی سازوسامان کے حامل ایئر کرافٹ، فریگیٹ، جنگی بحری جہاز اور سب میرینز کے علاوہ دیگر جدید جنگی سازوسامان شامل ہے۔
ان سب اعدادوشمار کو مدنظر رکھ کر ترکی کی فوج مسلم دنیا کی بہترین فوج ہے، اور سب سے طاقتور۔
 مصر
 مصر براعظم افریقہ کی سب سے بڑی فوج رکھنے والا ملک ہے۔ مصر براعظم ایشیا تک پھیلا ہوا ہے ،مصر کا شمار قدیم ترین اسلامی ممالک میں ہوتا ہے۔ مصر بھی خطیر رقم اپنی افواج اور دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ مصر محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہم اسلامی ملک ہے۔

 مصر کے فوجیوں کی کل تعداد 9 لاکھ 20 ہزار ہے، جبکہ مصر کی فضائیہ کے پاس 1100کے قریب لڑاکا طیارے اور دیگر جنگی سازوسامان کے حامل طیارے اور ہیلی کاپٹرز موجود ہیں۔ مصر کے پاس تقریبا 2150 سے زائد لڑاکا ٹینک موجود ہیں۔ مصر کی بحریہ کے پاس تقریبا 320کے لگ جنگی سازوسامان کے حامل مختلف اثاثہ جات ہیں جن میں ایئرکرافٹ، فریگیٹ ،جنگی بحری جہاز اور سب میرینز شامل ہیں۔

 پاکستان
 پاکستان واحد ایٹمی اسلامی ملک ہے۔ اس باعث پاکستان کا شمار اسلامی دنیا کی طاقتوں میں صف اول میں ہوتا ہے۔ ایٹمی قوت ہونے کے باعث پاکستان اسلامی ممالک میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شمار بھی دنیا کی بہترین افواج کے حامل ممالک میں ہوتا ہے، اور اسلامی ممالک میں بھی پاکستان تیسری بڑی فوجی طاقت ہے۔
پاکستان اپنے وجود سے لے کر اب تک مختلف بیرونی طاقتوں کے نشانے پر رہا اور اب تک مختلف جنگیں بھی لڑ چکا ہے۔ افواج پاکستان نے قیام امن کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان بھی خطیر رقم اپنے دفاع اور افواج پر خرچ کرتا ہے۔
 پاکستان کے فوجیوں کی تعداد بارہ لاکھ سے زائد ہے۔ پاکستان فضائیہ کے پاس 1350 کے قریب لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹرز وغیرہ موجود ہیں ۔
اور افواج پاکستان کے پاس تقریبا 2200 لڑاکا ٹینک موجود ہیں۔ پاکستانی بحریہ کا شمار بھی عالم اسلام کی بہترین بحریہ میں کیا جاتا ہے، پاکستان بحریہ کا کل اثاثہ 200 کے قریب مختلف جنگی بحری جہاز، سب میرینز ،فرییگیٹ اور دیگر جنگی سازوسامان ہے۔
 ایران
 اسلامی جمہوریہ ایران کا سابقہ نام فارس ہے۔ دنیا میں تہذیب و تمدن کے لحاظ سے ایران گیارہویں نمبر پر براجمان جبکہ ایشیا میں تیسرے نمبر پر ہے ۔
یورپ اور ایشیا کے وسط میں ہونے کے باعث ایران انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے ۔ایران بھی اپنے دفاع اور فوجی لحاظ سے مستحکم ملک ہے اور بجٹ کا بہت بڑا حصہ اس پر خرچ کرتا ہے۔
 ایران کے فوجیوں کی کل تعداد 8 لاکھ 75 ہزار کے قریب ہے۔ جبکہ ایرانی فضائیہ کے پاس 510 جدید جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹرز موجود ہیں۔ جبکہ ایرانی فوج کے پاس 1635جدید جنگی ٹینک موجود ہیں۔
ایرانی بحریہ کے پاس 400 کے قریب جنگی سازوسامان کے حامل اثاثہ جات ہیں جس میں جنگی بحری جہاز ،سب میرینز اور دیگر جنگی سازوسامان شامل ہے۔
انڈونیشیا
انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ انڈونیشیا کئی جزائر پر مشتمل ہے، جن میں بعض کافی بڑے اور پاس بہت چھوٹے ہیں ۔
انڈونیشیا بھی خطیر رقم اپنے دفاع اور افواج پر خرچ کرتا ہے۔
 انڈونیشیا کے فوجیوں کی کل تعداد 8لاکھ ہے، جبکہ انڈونیشیا کی فضائیہ کے پاس 450 کے قریب لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹرز موجود ہیں۔ انڈونیشیائی فوج کے پاس 315 جنگی ٹینک موجود ہیں۔ انڈونیشیا کی بحریہ کے کل اثاثہ جات 220 کے قریب جنگی بحری جہازاور سب میرینز کے علاوہ دیگر جنگی سازوسامان شامل ہے

Pakistan zindabad kay Narray India main || anti-CAA-NRC rally in Bengaluru raised the slogan



Pakistan zindabad kay Narray India main || anti-CAA-NRC rally in Bengaluru raised the slogan




بھارت میں ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی لڑکی کے والد کا ردِعمل
بیٹی کچھ مسلمانوں کے ساتھ مل گئی تھی،جیل میں سڑنے دیا جائے،پولیس اگر بیٹی کی ٹانگیں توڑ دے تو مجھے کوئی
  اعتراض نہیں
بھارت میں ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی لڑکی کے والد کا ردِعمل سامنے آیا ہے۔بیٹی کی گرفتار پر والد کا کہنا ہے کہ بیٹی نے جو کیا وہ غلط ہے۔وہ کچھ مسلمانوں کے ساتھ مل گئی تھی اور میری بات نہیں سن رہی تھی۔انہوں نے کہا بیٹی کو جیل میں سڑنے دیا جائے،پولیس اس کی ٹانگیں توڑ دے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
آمولیا کی وجہ سے گھر والوں کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔ آمولیا لیونامی لڑکی نے معروف مسلم سیاسی رہنما اسد الدین اویسی بھی موجود تھے،تاہم انہوں نے خود کو لڑکی کے بیان سے الگ کر لیا ہے۔بی جے پی کی تنقید کے بعد انہوں نے واضح کیا کہ ان کی جماعت کا لڑکی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔منتظمین کو اس لڑکی کو مظاہرے میں مدعو نہیں کرنا چاہئیے تھا۔
اگر مجھے یہ معلوم ہوتا تو میں یہاں نہ آتا۔

بھارتی ریاست کرنا ٹک کے وزیراعلیٰ بی ایس یدیور پا نےلڑکی کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ لڑکی کے والد نے بھی کہا کہ اس کے بازو اور ٹانگیں توڑ دینی چاہئیں اور اسے ضمانت نہیں ملنی چاہئئے۔ انڈیا کے شہر بنگلور میں شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران پاکستان زندہ باد کا نعرے لگانے پر 19 سالہ لڑکی کو گرفتار کرنے کے بعد غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
انہیں 14 روز کے لیے عدالتی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ بھارت میں اس نوعیت کے متعدد واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں خاص کر جب سے بھارتی سرکار نے متنازعہ شہریت بل لاگو کیا ہے تب سے اس قسم کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بنگلورو میں پیش آنے والے ایک واقعے میں نو عمر بھارتی لڑکی نے پاکستان زندہ باد کا


نعرہ لگا دیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ریلی میں شریک ایک خاتون نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔
واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والی خاتون کو روک رہے ہیں۔ انہوں نے اس واقعے کی مذمت بھی کی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 20 فروری کو ریاست کرناٹکا کے دارالحکومت بنگلورو میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے ایک
جلسے میں ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے والی غیر مسلم لڑکی کو ’غداری‘ کے کیس میں جیل بھیج دیا گیا۔

Hareem Shah Latest News || Interesting Report May Present to Imran Khan About Hareem Shah new video



Hareem Shah Latest News || Interesting Report May Present to Imran Khan About Hareem Shah new video

srytv,Hareem Shah Latest News Reports,Interesting Report May Present to Imran Khan About Hareem Shah,Present to Imran Khan About Hareem Shah,About Hareem Shah new video,reports hareem shah isi,intelligence report to pm about imran khan,hareem shah latest news,hareem shah tik tok girl news today,hareem shah and sandal khatak new video in market,hareem shah new video sry tv,hareem shah,hareem shah in waqar zaka show,hareem shah sheik rashid,hareem shah tik tok,sry





Bill Gates daughter Jennifer gates Married with Nayel Nassar Muslim Men

Bill Gates daughter Jennifer gates Married with Nayel Nassar Muslim Men



srytv,Bill gates Daughter married with a Muslim men,Bill gates Daughter married with a Muslim Men || Latest Pakistani News,Bill gates Daughter Jenniferk gates,Jenniferk gates Married with Nayel Nassar Muslim Men,shahid iqbal ch,sry,imran khan,Bill Gates Daughter Jennifer gates Married,jennifer gates engagement,jenier gates love with nayel nassar,Jennifer gates Married with Nayel Nassar,Bill Gates daughter Jennifer
Bill Gates Daughter Jennifer Katharine Gates, is now engaged with a Muslim guy and aims to Marry and labels him as one perfect guy for her on Social Media.
Jennifer Katharine Gates is a 23 years old daughter of Bill Gates, who is the founder of Microsoft and world’s richest man. She has studied at the Standford University and had been dating a Muslim Guy named Nayel Nassar, who is 28 years old.

Who is Nayel Nassar?
Nayel Nassar is an Egyptian guy, who is not just famous for dating a multi billion guy’s daughter but he has his own achievements as well. Nayel Nassar is a professional Egyptian horse rider and furthermore, he is also given the title of the “Biggest Breakout” in the World-cup Qualifier.
Nayel Nassar recently spotted having a great time with Bill Gates and her Daughter in this video;
ennifer Katharine Gates and Nayel Nassar Love Life
Le Parisien, a French magazine has recently confirmed that Nayel Nassar and Jennifer Katharine Gates are dating each other for months ago and soon will be marrying in a private ceremony.
Below are the Social Media posts attached to the Bill Gates daughter, Jennifer Katharine Gates where both of them can be seen together on different occasions and in different parts of the world.
According to a report, both of them, Nayel Nassar and Jennifer Katharine Gates are engaged and will be marrying each other by the next year.
This is not the first time that the western celebrity girls have fallen for Muslim men. Jenet Jackson, Rihanna, Mariah Carey and now her are dating Arab Men, it can be seen easily all over the internet that Janet Jackson is married to a Muslim Man, who is a business Tycoon.