جب فیصلے قانون کے مطابق نا ہوں تو فُل کورٹ سے خطرہ رہتا ہے، مریم نواز
مریم نواز نے کہا ہے کہ جب فیصلے آئین، قانون اور انصاف کے مطابق نا ہوں تو فُل کورٹ سے خطرہ رہتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ جب فیصلے آئین، قانون اور انصاف کے مطابق نا ہوں تو فُل کورٹ سے خطرہ رہتا ہےکیونکہ ایماندار ججز کے شامل ہونے سے فیصلے کی خامیاں منظرِ عام پر آجاتی ہیں اور لوگ جان جاتے ہیں کہ فیصلہ آئین و قانون نہیں، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ مگر اب کچھ بھی کر لیں،لوگ تو جان گئے۔
جب فیصلے آئین،قانون اور انصاف کے مطابق نا ہوں تو فُل کورٹ سے خطرہ رہتا ہے۔کیونکہ ایماندار ججز کے شامل ہونے سے فیصلے کی خامیاں منظرِ عام پر آ جاتی ہیں اور لوگ جان جاتے ہیں کہ فیصلہ آئین و قانون نہیں، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔مگر اب کچھ بھی کر لیں،لوگ تو جان گئے!— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) July 25, 2022
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ مجھے کم از کم یقین تھا فل کورٹ نہیں بنے گا اور انصاف نہیں ملے گا ، یہی میں قوم کو بتانا چاہتی تھی۔
فل کورٹ نا بنانے کی ایک ہی وجہ ہے۔۔۔خوف ! اپنے ہی کیے ہوئے فیصلوں کا تضاد سامنے آنے کا خوف!
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) July 25, 2022
واضح رہے کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو فل کورٹ بنا دیں گے تاہم فی الوقت استدعا مسترد کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف سماعت کی ۔ دوران سماعت سپریم کورٹ بار کے سابق صدور عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کافی صدور یہاں موجود ہیں۔
دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے سوال ہے کہ چوہدری شجاعت کا خط کب ملا اور کب اسمبلی میں پڑھ کر سنایا گیا۔ جس پر پرویز الہیٰ کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ خط ووٹنگ کے بعد رولنگ کے دوران ڈپٹی اسپیکر نے پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو ووٹنگ کے بعد کیسے خط ملا ، اس وقت تو پنجاب اسمبلی کے دروازے ہی بند تھے جس پر پی ٹی آئی وکیل نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ میں لکھا گیا کہ مجھے ابھی چوہدری شجاعت کا خط ملا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کو خط کسی نے آ کر نہیں دیا تھا، ڈپٹی سپیکر اجلاس کیلئے آئے تو خط ان کی جیب میں تھا۔ پی ٹی آئی وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ووٹنگ کے بعد دروازے بند ہوجاتے ہیں کوئی آ یا جا نہیں سکتا۔
بعد ازاں عدالت نے فل کورٹ بنانے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مشاورت کے بعد واپس آئیں گے اور فیصلہ دیں گے کہ فل کورٹ تشکیل دیا جاے یایہی بنچ کیس سنے۔ کیس کی سماعت ساڑھے 5 بجے تک ملتوی کردی گئی تھی جس کے بعد عدالت نے چوہدری شجاعت اور پیپلزپارٹی کی فریق بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کے وکلاء کے دلائل بھی سنے۔
تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ لیا اور پھر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے کئی گھنٹے تمام فریقین کو سنا، فریقین نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دیے، سوال یہ تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ قانونی ہے یا نہیں، سوال تھا کیا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے یا نہیں جب کہ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکی ہے۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے رولنگ میں پارٹی ہیڈ کے خط کو بنیاد بنایا، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر دلائل دیے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کل دلائل دیں۔
عدالت کا سیاسی بحران اور معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار
سپریم کورٹ نے پچھلے 4 ماہ سے جاری سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حمزہ شہباز کیس کو زیادہ دنوں تک التواء میں رکھنے سے انکار کردیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملات جلد حل کرنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایک نئی حکومت سامنے آئی، ہم چاہتے ہیں پارلیمان مضبوط ہو، ایوان میں مضبوط اپوزیشن ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں جاری بحران میں اضافہ ہورہا ہے، کیا آپ بحران میں مزید اضافہ چاہتے ہیں ، آپ چاہتے ہیں ستمبر میں فل کورٹ بنایا جائے، فل کورٹ بنانے کی صورت میں ملکی بحران میں اصافہ ہوگا، سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہو یا غلط لیکن فیصلہ بائنڈنگ ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت عوامی مفاد اور آئینی معاملات کو مزید التواء کا شکار نہیں کرے گی، ملک میں جاری معاشی بحران پر اس عدالت کو خدشات ہیں، کیا اس عدالت کی وجہ سے ملک میں بحران اور انتشار پیدا ہوا۔
سپریم کورٹ نے ملکی معاشی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے۔
حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس کو کم ووٹ ملے وہ اس وقت وزیر اعلیٰ ہے، عدالت نے پھر بھی وزیر اعلیٰ کو عہدے سے نہیں ہٹایا، ہم یہ معاملہ مزید نہیں لٹکا سکتے، عدالت اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کا استعمال کر رہی ہے، کسی کو اچھا لگے یا برا لیکن عدالت کسی پریشر میں نہیں آئے گی، آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہیے، حمزہ شہباز کا الیکشن غلط قرار دیا ، ہم نے حمزہ شہباز کو یکم جولائی کو وزارت اعلی نے نہیں ہٹایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلی کے الیکشن سے پہلے بھی فریقین کو بلا کر متفق کیا تھا، حمزہ شہباز کو ضمنی الیکشن تک بطور وزیراعلی برقرار رکھا تھا، حمزہ شہباز نے پرامن اور بہترین ضمنی الیکشن میں کردار ادا کیا، اب وزیراعلی کے الیکشن کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اج جس شخص نے 186 کے مقابلے میں 179 ووٹ لئے وزیراعلی ہے ، ایسے وزیراعلی کو جاری رکھنے کیلئے ٹھوس قانون وجوہات چاہئے ، ہم یکم جولائی کو فیصلہ دیتے ہوے بھی موجود وزیراعلی کو کام سے نہیں روکا تھا ، الیکشن کے نتائج کا احترام ہونا چاہیے ، اپ کہہ رہے ہیں پارٹی ہیڈ کا کنٹرول ہوتا ہے۔
چوہدری شجاعت اور پیپلزپارٹی کی فریق بننے کی درخواست منظور
بعد ازاں عدالت نے فل کورٹ بینچ بنانے سے متعلق محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کی جاتی ہے ، اگر ضرورت پڑی تو فل کورٹ بنادیں گے ، ابھی یہی تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت اور پیپلز پارٹی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست منظورکردی۔ سپریم کورٹ نے دباو میں آنے اور بلیک میل ہونے سے دو ٹوک انکار کردیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بنانے سے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ آج یہ فیصلہ ہوگا یا نہیں، فل کورٹ بنانے کیلئے مزید قانونی وضاحت اور معلومات کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے روسٹرم پر آکر سیاسی تقریر شروع کردی۔ انہوں نے کہا کہ 12 کروڑ کے وزیر اعلیٰ کو گھر بھیجنا سنجیدہ معاملہ ہے جس پر چیف جسٹس نے وزیر قانون سے مقالمہ کیا کہ آپ کا ہر لفظ ریکارڈ کیا جارہا ہے آپ کو احتیاط سے کام لینا چاہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے پانچ ججز کے ساتھ وزیراعظم کو گھر بھیجا ہے، اس وقت تو آپ مٹھائیاں بانٹ رہے تھے، ہم ضمیر اور آئین کے مطابق فیصلہ کریں گے، عدالت نے وکلاء کے تمام دلائل کا جائزہ لیا ، ہمیں ڈکٹیشن مت دیں، روسٹرم چھوڑ دیں اور بیٹھ جائیے۔
حمزہ شہباز اور ڈپٹی اسپیکر کے وکلا کا دلائل دینے سے انکار
حمزہ شہباز اور ڈپٹی اسپیکر کے وکلاء نے میرٹ پر دلائل دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہدایات لیے بغیر دلائل نہیں دے سکتے کیوں کہ ہم نے فل کورٹ سے متعلق دلائل لینے کی ہدایت دی گئی تھی، مزید دلائل دینے کے لیے ہدایت لینے کے لیے وقت چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ عدالت سے فوری خریداری چاہتے ہیں جس پر وزیر قانون نے جواب دیا کہ مسل لیگ ق سمیت دیگر فریقین نے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی اہم سوال آیا تو ہم فل کورٹ بنچ تشکیل دیں گے، اکیسویں آئینی ترمیم، این آر او کیس میں آئینی سوال تھا، ہم دیکھنا چاہتے ہیں اگر کوئی آئینی سوال آیا تو فل کورٹ بنچ تشکیل دیں گے، آرٹیکل 63 اے کا طویل سفر ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ میں نے استدعا کی ہے کہ فل کورٹ بنچ بنانے سے عدالتی تکریم میں اضافہ ہوگا، نظرثانی کیس ابھی دلائل نہیں ہوئے، بارہ کروڑ کا صوبہ ہے، سنجیدہ معاملہ ہے۔
پانچ ججوں نے ہی وزیراعظم کو گھر بھیجا تھا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ ججوں نے وزیراعظم کو گھر بھیجا تھا جس پر وزیر قانون نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ معذرت نہ کریں، آپ نے تو مٹھائیاں بانٹی تھیں، ہم نے آئین کو دیکھنا ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ کیس میں نہیں پیش ہونا نہ ہوں، اگر موجودہ حکومت سپریم کورٹ کو تسلیم نہیں کر رہی تو یہ بہت سنگین ہے۔
دپٹی اسپیکر کے وکیل نے ججز پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کی غیر جانبداری پر سوال نہیں اٹھارہے لیکن اس بنچ سے متعلق تاثر درست نہیں ، آپ عوامی رائے کو دیکھ لیں تو عدالت کو ادارک ہوجائے گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس دس ججوں نے سنا، یہاں ایک صوبے کا معاملہ ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا نیوٹرلرلیٹی پر سوال ہے۔
عرفان قادر نے کہا کہ یہ تاثر ہے کہ ایک ہی بنچ میں کیسز چلتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی حاضری بارے میری رائے پہ تھوڑی ناراضگی نظر آئی، ایک بینچ اہم کیسز سنے گا تو سوالات اٹھیں ہیں، عدالتوں کے جانبدار ہونے کا شائبہ بھی آئے تو جج بینچ سے الگ ہوجاتا ہے ، ابھی تک اس کیس کے قانونی نکات کا جایزہ لے رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی سماعت اسی لیے رکھی کہ تیاری کر لیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت سنجیدہ معاملات میں فل کورٹ بنایا جاتا ہے، یہ کیس تو سیدھا ہے، ایک سوال ہے، سوال یہ ہے کہ پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے یا نہیں، دیکھنا ہے ہمارے فیصلے میں اگر کوئی تضاد ہے کہ فل کورٹ بنائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے قاسم سوری کی رولنگ پر از خود نوٹس میں دن اور شام کو کیس سن کر چار دن میں فیصلہ کیا، اٹھائے گیے سوالات اور آئینی و قانونی نکات پر فل کورٹ بنایا جاتا ہے ، لیکن اس معاملے میں ہمیں فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ نہیں لگ رہا، اس کیس کو مزید طویل دینے کی ضرورت نہیں، یہاں پر تو گورننس کا مسئلہ ہے اور اس کیس میں ازخود نوٹس نہیں لیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری نظر میں اسپیکر صاحب نے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی جس پر عرفان قادر نے کہا کہ اگر عدالت کہہ دے منحرف اراکین کا ووٹ شمار ہوگا تو پھر معاملہ خراب ہو جائے گا، سیاست دانوں کیساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے فیصلوں میں متحد ہونا چاہیے، میں سپریم کورٹ پر تنقید نہیں کر رہا، آئین کی بالادستی ہونی چاہیے، اس کیس کو جلدی بازی میں نہ سنا جائے۔
پیپلزپارٹی کے وکیل کی استدعا مسترد
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت عدالت میں تلخ کلامی بڑھ رہی ہے، عدالت کیس کی سماعت ملتوی کرے تاکہ تلخی کا ماحول کم ہواور مجھے دلائل دینے کیلئے تھوڑا وقت دیا جائے۔
عدالت نے پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی جمعرات تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا حقائق نہیں صرف بیانیہ سنتا ہے، ہم نے اس کیس میں تمام فریقین کو بات کرنے کا موقع دیا، یہ عدالت زیر التوا مقدمات نمٹانے کیلئے دن رات کام کر رہی ہے، اس کیس میں ہیڈ آف پارٹی کی ڈائریکشن ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صرف ایک نقطہ دیکھنا ہے کیا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ اوور رول کر سکتا ہے یا نہیں، پارلیمانی پارٹی عام عوام کی اسمبلی میں نمائندگی کرتی ہے ، 18ویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو اختیارات دیے، ںورس جانسن کو پارلیمانی پارٹی نے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا ، ہم نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہے، افراد کو نہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کا مسئلہ عدالت میں آسکتا ہے یا نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ پارلیمنٹ غیر آئینی کام کرے گی تو معاملات عدالت میں آئیں گے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمان کے مسئلے عدالتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ جب پارلیمان میں آئین شکنی ہوگی یا غیر قانونی اقدام ہوگا تو معاملہ سپریم کورٹ میں آئے گا۔
وزیر اعلیٰ کا عہدہ خطرے میں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے ڈپٹی اسپیکر کے لیے آرٹیکل 69 کا استثناء مانگ لیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کا انتظامی معاملات میں استثنیٰ حاصل ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کا اختیار نہیں، ہم نے پینڈورا باکس نہیں کھولنا صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ دیکھنی ہے۔
فاروق نائیک نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اگر اسمبلی کی اندرونی کاروائی میں آتا ہے تو عدالت مداخلت نہیں کرسکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کے وقت تو یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا۔ فاروق نائیک نے کہا کہ اس وقت کسی نے سپریم کورٹ کاروائی چیلنج نہیں کی ہوگی، وقت کے ساتھ حالات، قوانین میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس وقت وزیر اعلیٰ کا عہدہ خطرے میں ہے اور ڈپٹی اسپیکر کو عدالت کے فیصلے کی تشریح کرنے کا اختیار نہیں ہے ، ہم صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے رہے ہیں۔
حکومت کی قانونی ٹیم عدالت کو جواب دینے میں ناکام
عدالت نے آج کی سماعت کے دوران 19ویں بار ایک ہی سوال پوچھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہاں لکھا ہے کہ پارٹی ہیڈ ڈائریکشن دے سکتا ہے؟ لیکن حکومت کی قانونی ٹیم کا چوتھا وکیل بھی عدالت کو مطمئن کرنے اور جواب دینے میں ناکام رہا۔
بعد ازاں چوہدری شجاعت حسین کے وکیل صلاح الدین احمد بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے دفاع میں ناکام رہے اور انہوں نے عدالت سے مزید تیاری کے لیے وقت مانگ لیا۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار کے دلائل
سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آ گئے اور آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بحران سے گریز کیلیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے جو تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنے ، ہم صرف عدالت کی رہنمائی کرنے ائے ہیں، سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف بار نے نظرثانی درخواست بھی دائر کی ہے۔
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس ہمارے فیصلے سے جڑا ہے، ہم تمام فریقین کو سننا چاہتے ہیں، یکطرفہ طور پر کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتے ، یہ کیس ہمارے 63 اے کی رائے کی بنیاد پر ہے۔
لطیف آفریدی نے کہا کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں صورتحال میں بہتری آئے، پارلیمنٹ اور عدلیہ ملکی نظام کا حصہ ہیں، ہماری درخواست ہے کہ فل کورٹ بناکر سماعت کی جائے۔
دباؤ میں آکر فیصلہ نہیں کرسکے، چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ سب کا بہت احترام ہے، آپ کے مشکور ہیں کہ معاملہ ہمارے سامنے رکھا، آفریدی صاحب، یہ کیس ہماری آرٹیکل 63 اے کی رائے کی بنیاد پر ہے، ہم فریقین کو سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے میں پارٹی صدر کا کردار محدود ہے، اوریجینل آرٹیکل 63 میں پارلیمانی لیڈر کا زکر ہے، ترمیم کے بعد پارلیمانی پارٹی کو فیصلوں کا اختیار دیا ہے، آرٹیکل 63 اے کی نظرثانی درخواستوں میں صرف ووٹ مسترد ہونے کا نقطہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی ہدایت کیسے دے گی یہ الگ سوال ہے، ہدایت دینے کا طریقہ پارٹی میٹنگ ہوسکتی ہے یا پھر بذریعہ خط، اپ کے مطابق پارلیمانی پارٹی پارٹی صدر کے ماتحت ہے، پارٹی سربراہ انتظامی معاملات میں خودمختار ہے جب کہ پارلیمانی پارٹی اسمبلی میں فیصلے کرنے میں با اختیار یے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت میں واضح ہو گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ ختم ہونا ضروری ہے، ایک سینئر پارلیمانی لیڈر نے صدارتی ریفرنس کے دوران پارٹیوں میں آمریت کی شکایت کی تھی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو اپنے ارکان کو سننا ہو گا، بیرون ملک بیٹھے سیاسی لیڈر پارلیمانی ارکان کو ہدایات دیا کرتے تھے، آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کیا گیا، پارلیمانی پارٹی کی بھی اپنی منشا ہوتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 10 سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے، دوسری طرف کو سننا بھی ضروری ہے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیکر تمام مقدمات کو یکجا کر کے سنا جائے۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی جانب سے چوہدری پرویز الہٰی کے حق میں ڈالے گئے 10 ووٹس مسترد کردیے تھے۔
انہوں نے رولنگ دی تھی کہ مذکورہ ووٹ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے احکامات کی خلاف ورزی ہیں، جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔
بعد ازاں چوہدری پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ق) کے وکیل عامر سعید راں کے توسط سے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
مذکورہ درخواست پر 23 جولائی کو سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے تاہم عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد جاری حکم نامے میں کہا تھا کہ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے اور بطور وزیر اعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کریں گے، جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔
No comments: