Select Menu

اہم خبریں

clean-5

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Misc

Technology

کہانی لمبی ہے،مگر پڑھیئے ضرور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

وہ غالباً دسمبر کی ایک سرد شام تھی جب میری ملاقات پہلی دفعہ غلام حسین سے ہوئی. وہ ایک گمنام مگر بےمثال گائیک تھا اور پیشے کے لحاظ سے باٹا کا سیلزمین تھا. مجھے اپنی پسندیدہ ساخت کے جوتے خریدنا تھے مگر بہت ڈھونڈنے پر بھی اور پورا ملتان چھان ڈالنے پر بھی نا ملے.آخر خدا بھلا کرے ایک صدر میں واقعہ جوتوں کی دُکان والے کا کہ جس نے مجھے پرانے قلعہ کے قرب میں واقع باٹا کی ایک شاخ کا پتہ بتایا. میں نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو گاڑی میں بٹھایا اور چل 
پڑا۔


دسمبر میں ملتان کا روپ ہی کچھ نرالا ہوتا ہے. ڈھلتی شام کی افسردہ دھوپ جب پرانے شہر کی بےرنگ فصیلوں کو چومتی ہے تو ہر طرف ایک سنہرا غبار سا چھا جاتا ہے. گردوغبار کے بادل اور ان بادلوں کے تھکے ہوئے کندھوں پر سوار چیلیں بھی سردی سے ٹھٹھرتے نظر آتے ہیں. اس شہر پر بزرگوں اور دل والوں کا سایہ ہے. کچھ نیم تاریخی حکایات کے مطابق اسی شہر پر حملے کے دوران سکندر اعظم کی چھاتی میں ایک تیر لگا کہ جس کی وجہ سے بعد میں وہ آدھی دنیا کا فاتح موت سے ہمکنار ہوا. مجھے کچھ یوں لگتا ہے کے جیسے چھاتی میں تیر لگنے کا واقعہ استعارے کے طور پر استمعال ہوا تھا. خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ مختصر بات یہ کہ ملتان سے باہر کے لوگوں میں سے بہت کم ہیں جو اس شہر کی محبت کا شکار ہوتے ہیں. نئی سڑکوں اور پلوں کی موجودگی کے باوجود کچھ ٹوٹا پھوٹا سا شہر ہے. لہذا ٹوٹے پھوٹے لوگوں کو ہی پسند آتا ہے۔
تھوڑا بہت پوچھنا ضرور پڑا مگر آخرکار ہم باپ بیٹا اس دُکان کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے. چھوٹی سی دُکان تھی اور اسکا حلیہ دیکھ کر مجھے نہیں لگا کہ وہاں سے میری مراد پوری ہوجائے گی. خیر ڈوبتے دل کو سہارا دیا اور اندر داخل ہوگئے. ایک عام سا سیلزمین اکیلا کھڑا جھاڑ پونچھ کر رہا تھا. شخصیت اس قدر بےکشش تھی کے میں نے اسکی طرف غور سے دیکھے بغیر جوتوں کا پوچھا. اس نے انتہائی غور سے میری ہدایات سنیں
سر آپ تشریف رکھیں. میں اوپر گودام میں چیک کرتا ہوں. امید ہے کے جو جوتے آپ مانگ رہے ہیں وہ سٹاک میں موجود ہیں. بس الله کرے ناپ کے پورے ہوں.’ اس نے مستعدی سے کہا اور پھر پھرتی سے اور ‘یا علی مدد’ کہہ کر لوہے کی سیڑھیاں چڑھ کر گودام میں چلا گیا۔
میں بیٹھنے کی بجائے اپنے بیٹے کے ساتھ شو کیسوں میں سجے جاگر دیکھنے لگا. جوتے دیکھتے دیکھتے اچانک میرے کانوں میں گنگنانے کی آواز پڑی تو میں چونک گیا. کوئی بہت ہی مدھر سروں میں استاد فتح علی خان صاحب کے انداز میں ‘گھر کب آؤ گے؟’ گنگنا رہا تھا. عجیب سا درد کسمسا رہا تھا سروں میں. میرے بیٹے نے بھی سن کر میری طرف دیکھا۔
‘بابا یہ کون گا رہا ہے اور کیا گا رہا ہے؟’
شاید وہ جوتوں والے انکل ہیں. درد گا رہے ہیں اور خوب گا رہے ہیں.’ میں نے مسکراتے ہوئے اور اسکی چمکتی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جواب دیا۔


اتنے میں وہ سیلزمین بھی ایک جوتوں کا ڈبہ اٹھاے نیچے اتر آیا
‘لیجئے صاحب. میرا خیال ہے کہ آپ یہ ہی چیز مانگ رہے تھے’
جوتوں کو چھوڑو. یہ بتاؤ ابھی اوپر تم گنگنا رہے تھے؟’ میں نے بےصبری سے اوپر سے نیچے اس لڑکے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
وہ چھوٹے سے قد کا، نہایت سانولے رنگ کا اور اکہرے بدن کا جوان لڑکا تھا. گھنگریالے سیاہ بال اور بھینگی سرمہ لگی آنکھیں جن میں ذہانت کی چمک نمایاں تھی اور چمکتے ہوئے سفید مگر ٹیڑھے میڑھے دانت. کالے رنگ کا شلوار قمیض پہن رکھا تھا جو وقت کی مار کھا کھا کر اور دیسی صابن سے دھل دھل کر گہرے سرمئی رنگ کا ہوچلا تھا. کالر سے نیچے دو بٹن کھلے ہوئے تھے اور کھلے گریبان سے کچھ تعویذ جھانک رہے تھے. ایک کلائی میں پتلا سا چاندی کا کڑا چمک رہا تھا. پاؤں میں معمولی سی ہوائی چپل پہنے ہوئے تھا۔
.جی سر. میں ہی تھا. گنگانا کیا ہے بس جی خوش کر رہا تھا.’ اس نے شرماتے ہوئے کہا’
.بہت خوبصورت آواز ہے تمہاری. نام کیا ہے؟’ میں نے دلچسپی سے اسے شرماتے ہوئے دیکھا’
.سر بندے کو غلام حسین کہتے ہیں.’ اس نے نہایت انکساری سے جواب دیا’
کسی اچھے خاندان کے لگتے ہو. گانا سیکھا ہے کہیں سے کہ بس خدا کی دین ہے؟’ میں نے اسکے لب و لہجے پر غور کرتے ہوئے پوچھا۔

پتہ نہیں سر آپ اچھا خاندان کسے کہتے ہیں؟ بہرحال میرا تعلق گائیکوں کے ایک مشہور خاندان سے ہے اور میں فلانے صاحب کا نواسہ ہوں.’ اس نے ماضی کے ایک مشہور ومعروف لوک گلوکار کا نام لیا تو میں بری طرح سے چونک گیا۔
کیا کہہ رہے ہو غلام حسین؟ تم ان صاحب کے نواسے ہو؟’ میں نے حیرانی سے پوچھا: ‘تو پھر یہاں جوتوں کی دکان میں کیا کر رہے ہو؟
سر میں ان کا نواسہ ضرور ہوں مگر صرف سر ہی وارثت میں پایا ہے. لیکن وہ خود کونسا بڑی امارت میں فوت ہوئے تھے؟ بہت کسمپرسی میں انتقال ہوا انکا.’ غلام حسین نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا
.شادی شدہ ہو؟’ میں نے پوچھا’
.جی سر، مولا کے کرم سے دو بچے ہیں: سکینہ اور علی اصغر.’ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’
ماشاء الله. اس نوکری سے گزارا ہوجاتا ہے یا پھر کچھ اور بھی کرتے ہو؟’ میں نے جوتے کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔
شکر ہے پنچتن پاک کا سر. بس یہ نوکری کرتا ہوں اور محرم میں مجالس میں لوگ بلا لیتے ہیں نوحہ خوانی کیلئے. مل جل کر گزارا ہو ہی جاتا ہے.’ اس کے چہرے پر مسکراہٹ ضرورتھی مگر آواز میں غربت اور بھوک سسک رہی تھی۔
میں اور کچھ نہیں بول سکا بس جوتے خریدے، غلام حسین سے اسکا موبائل نمبر لیا اور بیٹے کو لیکر دکان سے نکل گیا. گھر تک کا سارا راستہ گاڑی کے میوزک پلیئر پر غلام حسین کے نانا مرحوم کی آواز گونجتی رہی اور میں سوچتا ہی رہا، غلام حسین کے بارے میں، اسکی درد بھری آواز کے بارے میں اور اپنے معاشرے کے بارے میں جس کو شاید ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں تھی۔
_______________________________________________
غلام حسین سے میری دوسری ملاقات میرے ایک دوست جواد کے دفتر میں ہوئی جس کا ایڈورٹائزنگ کا کاروبار تھا. میں ابھی اپنے دفتر کے کام سے فارغ ہی ہوا تھا کے اچانک اسکا فون آ گیا
کیا کر رہے ہیں سر؟ فارغ ہیں تو دفتر سے سیدھا ادھر ہی آجائیں. آپ کی ملاقات کرانی ہے ایک ہیرے سے.’ اسکی زندگی سے بھرپور آواز موبائل پر گونجی۔
.کونسا ہیرا ڈھونڈ لیا اب تم نے؟’ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا’
بس آپ پہنچنے کی کریں. ہیرے کو سنیں گے تو اسکی چمک کا احساس ہوگا.’ جواد کو میری موسیقی سے دلچسپی کا اچھی طرح سے علم تھا۔


_______________________________________________________
میں جواد کے دفتر کے سامنے گاڑی پارک کرکہ اندر داخل ہوا تو میری نظر سب سے پہلے غلام حسین پر پڑی. وہ مجھے دیکھ کر تھوڑا حیران ضرور ہوا مگر فوراً اٹھ کر میرا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔
.آپ ایک دوسرے سے پہلے ہی واقف ہیں؟’ جواد نے چونک کر پوچھا’
نا صرف واقف ہیں بلکہ چمک کا بھی اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے.’ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور جواد کو جوتوں کی دوکان کی داستان سنا ڈالی۔
جواد کے پاس بیٹھے غلام حسین سے تفصیلاً گپ شپ لگی تو اسکے حالات کا کچھ بہتر طریقے سے اندازہ ہوا. بہت ہی غریب آدمی تھا. جواد کے کسی دور کے رشتے دار کا جاننے والا تھا اور اسکے پاس بھی اس لیے آیا تھا کے ریڈیو پاکستان میں کوئی سفارش ہوجائے. خیر اس بیچارے کا کام ہوگیا. جواد کی تھوڑی واقفیت تھی ریڈیو پاکستان میں. وہ کام آگئی۔
وہیں بیٹھے تھے کے سُروں کی بات چھڑ گئی۔’
تمہیں اور تمہارے خاندان کو الله نے، سرکی دولت سے نوازا ہے غلام حسین. مجھے افسوس ہے کہ ہمارا معاشرہ اسکی قدر نہیں کر سکا.’ میں نے سنہری چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا
سر دولت نہیں ہے سر. بلکہ ایک امتحان ہے. بس میری دعا ہے کے مولا مجھے اس امتحان میں پاس کر دے.’ اس نے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا
.امتحان کیسے غلام حسین؟’ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا’
الله کی ہر نعمت امتحان ہوتی ہے سر. وہ بس پرچہ ترتیب دیتا ہے. جواب تو ہم نے دینا ہوتا ہے. وہ پوچھے گا کہ ہاں بھائی غلام حسین! بھلا کیسے استمعال کیا تم نے ہماری دی نعمت کا؟ تو جواب تو ہونا چاہیے نا اچھا سا؟’ اس نے مجھ سے پوچھا
ہاں بالکل.’ میں نے اقرار میں سر ہلایا اور پوچھا: ‘تو پھر تم کیا جواب دو گے؟ کیسے استمعال کرتے ہو سروں کو؟
میں؟’ غلام حسین کی آنکھیں کسی اندرونی جذبے کی حدّت سے چمکنے لگیں. ‘میں سر…..میں کہوں گا الله تعالی، میں نے جو بھی گایا، تیرے حبیبﷺ کے نواسے کی محبت میں گایا. اس سے بہتر کیا استمعال کرتا تیرے دیے سر کا؟
.ہوں!….ٹھیک. پھر اللہ کیا کہے گا؟’ میں نے اسکی سادگی اور محبت کو ادب سے دیکھتے ہوئے کہا’
پھر الله نے کیا کہنا ہے؟ یہ ہی کہے گا کہ ٹھیک ہے جاؤ غلام حسین. تم بخشے گئے ہو.’ اس نے سرشار ہو کر بند آنکھوں کے ساتھ کہا۔
اچھا یہ مجھے بتاؤ غلام حسین کہ یہ تم لوگ ماتم کیوں کرتے ہو؟ مجھے کچھ تم لوگوں کا رونا پیٹنا سمجھ نہیں آتا. مذہب میں بھی غالباً اسکی گنجائش نہیں.’ میں نے احتیاط سے پوچھا. میں جاننا چاہتا تھا کے غلام حسین اس بارے میں کیا خیالات رکھتا ہے


ماتم؟ واقعہ کربلا پرماتم تو ہر مسلمان کو کرنا چاہیے سر.’ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ‘حسین معمولی آدمی نہیں تھے. وہ نواسہ رسولﷺ تھے. نبیﷺ کے پیارے تھے. حضورﷺ جب نماز پڑھتے تو حسن و حسین کندھوں پر سواری کیا کرتے تھا انکی. اب آپ بتائیں کیا کسی اور کو یہ مرتبہ حاصل تھا؟ نبیﷺ کے پیارے کو، راج دلارے کو، مار دیا ان ظالموں نے. تو رونے کی، ماتم کرنے کی بات تو ہے نا یہ؟ اگر حضورﷺ کے دکھ پر بھی نا روے تو روز قیامت کس منہ سے ان سے شفاعت کی امید رکھیں گے؟
غلام حسین کی معصوم حیرت مگر بامعنی دلیل نے مجھے شرمندہ کر دیا. خیر باتیں چلتی رہیں. چائے چلتی رہی. بلا شبہ وہ ایک منفرد انسان تھا. وقت کا احساس تب ہوا جب قریبی مسجد کے لاؤڈسپیکر پر مغرب کی اذان گونجی. میں نے چونک کر گھڑی دیکھی اور پھر اٹھ کر جواد سے اجازت لی. نکل ہی رہا تھا کہ غلام حسین نے بھی راستے میں بس اسٹاپ پر اتارنے کی گزارش کر ڈالی. اسکو بھی ساتھ لے لیا۔
باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھ ہی رہے تھے کے آسمان پر بادل گرجے اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنی شروع ہوگئ. میرا دل نہیں کیا کے میں سردیوں کی بارش میں غلام حسین کو بس اسٹاپ پر ہی اتار دوں. میں نے اسے گھر اتارنے پر اصرار کیا تو بیچارا گھبرا کر کہنے لگا
‘میرا گھر اندررون بوہڑ گیٹ میں ہے سر. تنگ تنگ گلیاں ہیں. آپکی گاڑی کا حشر خراب ہوجائے گا’
کوئی بات نہیں یار.’ میں نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا. ‘اور تو کوئی خدمت کر نہیں سکتا تمھاری. یہ ہی سہی۔
وہ راستہ بتاتا رہا اور میں ڈرائیونگ کرتا رہا. واقعی بہت گنجان علاقہ تھا. تنگ وتاریک گلیاں تھیں. ٹریفک زیادہ ہوتی تو گزرنا محال ہوتا مگر میں خاموشی سے بارش کا شکریہ ادا کرتا رہا کے جسکی وجہ سے بہت رش نہیں تھا. آخر ایک گلی کے سامنے غلام حسین نے گاڑی رکوا دی
بس یہیں روک لیں سر. اسی گلی کے آخر میں میرا گھر ہے. گاڑی یہیں پارک کر دیں. میرے ساتھ چل کر گھر پر چائے کا ایک کپ پی لیں. یقین مانیں، میں اسے اپنے لئے بڑی عزت کی بات سمجھوں گا۔
میں جلدی واپس گھر پہنچنا چاہتا تھا مگر اسکے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کے میں انکار نا کرسکا. گاڑی وہیں ایک پان سگریٹ کے کھوکے کے سامنے کھڑی کردی، جس کا مالک غلام حسین کا جاننے والا تھا. گلی میں داخل ہوئے تو اونچی دیواروں اور سٹریٹ لائٹ کے نا ہونے کے سبب تاریکی کا احساس کچھ اور بڑھ گیا. مگر کچھ دور ہی چلے ہوں گے کے اس کا مکان آ گیا
سر آپ ایک منٹ یہیں ٹہریں. میں اندر اطلاع کر دوں.’ غلام حسین نے کہا اور پھٹا پرانا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوگیا۔
میں نے مکان کا جائزہ لیا. بالکل سامنے ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کی صدر محراب پر جلتے پیلے بلب سے کچھ روشنی موجود تھی. ننگی اینٹوں کی دیواروں والا چھوٹا سا گھر تھا جو دونوں اطراف سے پڑوس کے مکانوں سے متصل تھا. لکڑی کا دروازہ پردے سے ڈھکا ہوا تھا اور چونکہ گلی کے فرش سے اونچا تھا تو دو تین سیڑھیاں بھی موجود تھیں جن کے درمیان میں ایک سیمنٹ سے بنی ڈھلان بنی ہوئی تھی. غالباً سائیکل یا موٹر سائیکل چڑھانے کیلئے بنائی گئی تھی. مکان کی دیواروں پر جگہ جگہ بڑے بڑے حروف میں کچھ لکھا ہوا تھا. پہلے تو میں نے دھیان نہیں دیا کہ شاید حسب معمول کسی حکیمی دوائی کا اشتہار ہوگا. لیکن جب ادھر ادھر نظر ڈالی تو احساس ہوا کے لکھائی صرف غلام حسین کے گھر کی دیواروں پر تھی. ارد گرد کے تمام گھروں کی دیواریں بالکل صاف تھیں۔.
میں نے آنکھیں پھاڑ کرپڑھنے کی کوشش کی تو پتا لگا ‘شیعہ کالا کافر ہے.’ لکھا ہوا تھا. ایک لمحے کیلئے تو میرا پارہ چڑھ گیا. ‘مذاق بنا لیا ہے اس قوم نے. برداشت بالکل ختم ہوگئی ہے.’ میں نے کھولتے ہوئے سوچا۔
اسے چھوڑیں سر. بچے شرارت سے لکھ گئے ہیں.’ غلام حسین نے باہر نکل کر مجھے لکھائی کی طرف گھورتے ہوئے دیکھا تو مسکرا کر کہا. ‘آئیں اندر چلیں
عجیب شرارت ہے؟ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے لکھنے کی؟’ میں غصے میں بڑبڑایا اور پھر سر جھٹک کر اس کے پیچھے اندر بڑھ گیا۔
عجیب بات یہ تھی کے محلے میں تو بجلی موجود تھی مگر غلام حسین کے گھر میں بالکل اندھیرا تھا. روشنی صرف اسکے ہاتھ میں پکڑی لالٹین سے آ رہی تھی. خیر میں نے کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا. میرا خیال تھا کے شاید غریب بل نا جمع کرا سکا ہو اور محکمے نے بجلی کاٹ دی ہو. ایک چھوٹی سی راہداری سے گزر کر ہم ایک مختصر سے صحن میں پہنچ گئے. فرش پر پرانے سٹائل میں سیاہ اور سفید ٹائلیں لگی تھیں، صحن کے دونوں اطراف کمرے تھے. ایک کمرے کے اوپر پرچھتی ڈلی تھی. میرے بالوں پر پانی کے کچھ قطرے گرے تو میں نے اوپر دیکھا. صحن کے بالکل اوپر چھت میں ایک چھ فٹ ضرب چھ فٹ کا مربع شکل میں سوراخ کھلا ہوا تھا جس کے اطراف میں لکڑی کی جالیاں لگی تھیں۔
السلام علیکم انکل!’ کی آواز کورس میں گونجی تو میں نے مڑ کر دیکھا. دو صاف ستھرے بچے کھڑے تھے. ایک شاید پانچ ساڑھے پانچ سال کی بچی اور دوسرا ایک تقریباً چار سال کا لڑکا. ‘ہوں!….تو یہ ہیں سکینہ اور علی اصغر.’ میں نے دونوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور انکا نام لیا تو وہ حیرت سے پہلے شرمایے اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
بہت مزے کی چائے بنائی تھی غلام حسین کی بیوی نے. ساتھ چنے کی دال کی مٹھائی تھی اور آلو کے خستہ پکوڑے. مزہ آ گیا. میں پندرہ بیس منٹ بیٹھا اور پھر غلام حسین کے بیحد منع کرنے پر بھی اس کے بچوں کے ہاتھ میں تھوڑے سے پیسے تھما کر جانے کو اٹھ کھڑا ہوا۔
___________________________________________
گھر سے باہر نکلے تو بارش تھم چکی تھی
چلو اچھا ہے، بارش تھم گئ. تمہارا گھر تو پرانا ہے. چھتیں ٹپکنے سے بچ گئیں.’ میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے غلام حسین سے کہا۔
چھتیں ٹپکنے سے تو ہمارا پانی پورا ہوتا ہے سر. بارش نا ہو تو پڑوسیوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں. کبھی ترس کھا کر پانی دے دیتے ہیں، کبھی نہیں. مرضی کی بات ہے.’ اس نے کہا تو میں چونک گیا
‘کیوں؟ تمہارے گھر کمیٹی کا پانی نہیں آتا غلام حسین؟ اور ہاں بجلی کیوں نہیں آ رہی تمہارے گھر؟’
چھوڑیں سر. لمبی کہانی ہے. پھر کبھی سناؤں گا. ابھی آپ گھر سے لیٹ ہورہے ہیں.’ اس نے ایک افسردہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
میں کچھ پوچھنے ہی لگا تھا کے سامنے مسجد کے صدر دروازے سے تین چار نوجوان نکل آئے. کپڑوں اور سر پر بندھی مخصوص رنگ کی پگڑیوں سے اندازہ ہورہا تھا کے ان کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے ہے. مجھے اور غلام حسین کو دیکھ کر اچانک رک گئے اور آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے. پھر وہ ہماری طرف بڑھے ہی تھے کے غلام حسین نے اچانک مجھے دھکیلتے ہوئے کہا
‘آپ اب چلیں سر. بہت دیر ہوچکی’
مجھے اس کا اس طرح سے دھکیلنا عجیب تو بہت لگا مگر پھر کچھ سوچ کر میں نے قدم بڑھایا ہی تھا کے ایک کرخت آواز نے قدم روک لیے
‘تو نے مکان نہیں چھوڑنا شیعہ کی اولاد؟’
میں نے مڑ کر دیکھا تو ان نوجوانوں میں سے ایک آگے بڑھ کر ہم سے مخاطب تھا
.میرے مہمان آئے ہیں. انکو رخصت کرکے آتا ہوں. پھر بات کرتا ہوں آپ لوگوں سے.’ غلام حسین نے گھبرا کر کہا’
.اوئے تیرے مہمان کی ایسی کی تیسی.’ ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر غلام حسین کو گریبان سے پکڑ لیا’
.کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو؟’ میری دخل اندازی ضروری ہوچکی تھی’
.تمہیں اس سے کیا؟ تم کون ہو؟ شیعہ ہو یا سنی ہو؟’ اس لڑکے نے بڑی بدتمیزی سے مجھ سے پوچھا’
میں جواب تو یہ دینا چاہتا تھا کہ نا شیعہ ہوں، نا سنی، نا مسلمان، بس انسان ہوں. لیکن پھر معاملے کی نزاکت کو مدِنظر رکھ کر بولا: ‘سنی ہوں. لیکن کیا بات ہے؟ تم لوگ اس غریب کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟
سنی ہو تو اس کافر کے گھر کیا کرنے آئے ہو؟’ ایک اور نوجوان نے اگے بڑھتے ہوئے کہا اور پھر غلام حسین کی بیوی کے کردار کے بارے میں ایسی بیہودہ بات کی کہ میرا خون کھول اٹھا. خیر وہ چار تھے اور ہم دو. میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ انہیں گھورتا رہا۔
تم جاؤ اپنا کام کرو بابو. ہمیں اپنا کرنے دو.’ ان کے لیڈر نے شاید میرے لباس سے میری حیثیت کا تھوڑا بہت اندازہ لگا لیا تھا۔
غلام حسین میرا دوست ہے. میں اس کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا. پہلے تم بتاؤ کہ بات کیا ہے؟’ میں نے آرام سے اس سے پوچھا
دوست ہے تو اس کو سمجھاؤ. یہ مسلمانوں کا محلہ ہے. یہاں اسکی اور اسکے بچوں کی کوئی گنجائش نہیں. ہم زیادہ انتظار نہیں کریں گے.’ ان نوجوانوں کے لیڈر نے غرا کر کہا اور پھر ہم دونوں کو سر سے پاؤں تک نفرت سے گھور کر باقی لڑکوں کو لیکر وہاں سے چلا گیا۔
.یہ کیا معاملہ ہے غلام حسین؟’ میں کچھ کچھ بات سمجھ چکا تھا لیکن پھر بھی اس سے پوچھا’
کیا بتاؤں سر؟ ہم پچھلی کئی دہائیوں سے اس محلے میں رہتے آ رہے تھے. کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا. مگر پچھلے سال ہی مسجد کے پرانے امام صاحب کا انتقال ہوگیا. بہت نیک اور فرشتہ صفت انسان تھے. ان کے انتقال کے بعد مسجد پر ایک سنی انتہاء پسند گروپ نے قبضہ کر لیا ہے. ان سے محلے میں ایک شیعہ کا وجود برداشت نہیں ہوتا. شاید میں نوحے اور نعتیں نا پڑھتا ہوتا تو کسی کو میرے شیعہ ہونے کا پتا نہیں چلتا. لیکن کیا کروں؟ ہم غریبوں کا گزارا تو ہوتا ہی سُر کی کمائی پر ہے. جب انکو میرے شیعہ ہونے کا پتہ چلا تو پہلے تو صرف مجھے مسجد میں نعتیں پڑھنے سے روکا، لیکن اب کچھ مہینوں سے انکی زیارتیاں حد سے بڑھ چکی ہیں. بجلی اور پانی دونوں زبردستی کاٹ دیے ہیں. بچے اور بیوی باہر نکلتے ہیں تو دھمکیاں دیتے ہیں. میرے بچوں نے تو ڈر کے مارے اسکول جانا ہی چھوڑ دیا ہے سر.’ غلام حسین کی آواز بے بسی کی نمی سے دھندلا گئ
.’چاہتے کیا ہیں یہ؟’ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا’
چاہنا کیا ہے سر؟ بس کہتے ہیں یہ محلہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جاؤ. اب آپ بتائیں میں غریب اس آبائی گھر کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ اور کیا گارنٹی ہے کہ جہاں جاؤں گا، وہاں سے نہیں نکالا جاؤں گا؟’ اس بیچارے نے قمیض کے دامن سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
.تم نے اپنے کسی مذہبی لیڈر سے بات کی؟’ میں نے افسوس سے پوچھا’
بہت لوگوں سے بات کی سر. بہت سوں سے مدد کی درخواست بھی کی. لیکن کسی کو مجھ سے غرض نہیں ہے. بس محرم میں نوحے سن کر ہائے ہائے کریں گے، میری جیب میں چار پیسے ڈالیں گے اور بس.’ غلام حسین نے سر اٹھا کر میری آنکھوں میں جھانکا: ‘آپ میری کوئی مدد کریں سر. آپ کے دوستوں میں تو پولیس والے اور ضلعی انتظامیہ والے بھی ہوں گے. آپ ان سے بات کریں سر. میں اور میرے بیوی بچے ساری زندگی آپ کے پاؤں دھو دھو کر پیئیں گے.’ اس نے بیچ گلی میں میرے پاؤں پکڑنے کی کوشش کی
کیا کرتے ہو غلام حسین؟ تم فکر نا کرو. میں کل ہی کسی سے بات کرتا ہوں.’ میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا

گھر تک کا سارا راستہ اسی سوچ بچار میں گزرا. گھر جا کر بیوی سے بات کی تو وہ بولی
گھر کے پیچھے سرونٹ کوارٹر کب سے خالی پڑا ہے. آپ کل جا کر ان غریبوں کو یہاں لے آئیں. میں اسکے بچوں کو اپنے بچوں کے اسکول میں داخل کروا دوں گی. یہاں انکو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔
بیوی کی بات میرے دل کو لگی اور میں نے دل ہی دل میں اگلے دن جواد کے ذریعے غلام حسین کو منانے کا ارادہ کرلیا۔
____________________________________________
اگلے دن میں نے دفتر کا کام جلدی جلدی سمیٹا اور جواد کی طرف جانے ہی لگا تھا کے وہ خود آن پہنچا۔
بھائی بہت لمبی عمر ہے تمھاری. میں تمھاری ہی طرف آنے کے بارے میں سوچ رہا تھا.’ میں نے اسکے دفتر میں داخل ہوتے ہی کرسی سے اٹھ کر کہا. لیکن پھر چونک کر رک گیا۔
جواد کا حال بہت خراب تھا. چہرے پر تاسف اور سراسیمگی، ہونٹوں پر پپڑیاں، بال بکھرے ہوئے اور سرخ ہوتی آنکھوں میں آنسو۔
کیا ہوا جواد؟ خیر تو ہے؟’ میں نے اسکو کرسی پر بٹھاتے ہوئے اور پانی کا گلاس اسکے سامنے سرکاتے ہوئے کہا
.کچھ نا پوچھیں بھائی. بہت بڑا ظلم ہوگیا آج.’ اس نے بالوں کو انگلیوں سے بھینچتے ہوئے کہا’
‘کچھ بتاؤ تو پتا چلے.’ میں نے پریشانی سے پوچھا: ‘گھر پر سب ٹھیک ہے؟’
‘میرے گھر پر سب ٹھیک ہے مگر بیچارا غلام حسین اپنے پورے خاندان سمیت ختم ہوگیا’
.کیا کہہ رہے ہو؟ یہ کیسے ہوا؟ کیا ہوا؟’ مجھے ایک لمحے کو جواد کی بات پر یقین نہیں آیا’
جواد نے پانی کے گلاس کو ایک ہی سانس میں خالی کیا اور پھر مجھے پوری تفصیل سے آگاہ کیا۔
غلام حسین کا مینیجر اسکے گھر کے قریب ہی رہتا تھا. روز صبح دوکان پر جاتے ہوئے وہ غلام حسین کو بھی ساتھ موٹر سائکل پر بٹھا کر لے جاتا. اسطرح اسکا کرایہ بھی بچ جاتا اور وہ دکان پر بھی ٹائم پر پہنچ جاتا. اس دن بھی مینیجر غلام حسین کو حسب معمول لینے کیلئے آیا مگر بڑی دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود کوئی نہیں نکلا. لیکن دروازہ اندر سے بند نہیں تھا. اسکو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تو وہ اندر داخل ہوا. اندر سب کچھ خون میں لت پت تھا. غلام حسین کا سر کاٹ کر بیت الخلاء میں پھینکا ہوا تھا. اسکی بیوی اور بچوں کو بھی انتہائی بیدردی سے ذبح کر دیا گیا تھا. پولیس نے کمال فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نامعلوم افراد کے نام پرچہ کاٹ دیا تھا. لاشیں نشتر ہسپتال کے مردہ خانے میں پوسٹ مارٹم کا انتظار کر رہی تھیں۔
میں نے اور جواد نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر جلدی جلدی پوسٹ مارٹم کروایا اور مییتیں لیکر غلام حسین کے گھر پر آ گئے. ارادہ تھا کےرات عشاء کے فوری بعد تدفین کر دی جائے گی. تھوڑے بہت رشتےدار اکٹھے تھے اور جو تھے وہ بھی ڈری ڈری نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے. میرے لئے بہت بڑا واقعہ تھا اور ان چار جنازوں کی طرف دیکھتے ہی میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے تھے. لیکن کسی نا کسی طرح میرا ضبط قائم تھا.
جنازے گھر سے نکلے تو بس گنتی کے سولہ افراد جنازے میں شامل تھے. وہ بھی بس واسطے دے دے کر پورے کئے کہ اس کے بغیر چار جنازے اٹھانا ممکن نہیں تھا. ابھی گھر کے دروازے پر ہی تھے کے موسلادھار بارش شروع ہوگئ. جواد نے تھوڑا انتظار کرنے کی بات کی تو میں نے اسے سمجھایا کہ انتظار کیا تو وہ چودہ افراد بھی کسی نا کسی بہانے سے نکل جائیں گے. اسی بحث کے دوران میری نظر سامنے پڑی تو مسجد کے دروازے پر کچھ بےحس لوگ پیلے بلب کی روشنی تلے کھڑے، چپ چاپ ہماری طرف دیکھ رہے تھے. لیکن ان میں پچھلے دن والا کوئی لڑکا شامل نہیں تھا۔
.آئیے. آپ بھی کندھا دے دیں.’ میں نے مسجد کے دروازے پر کھڑے افراد کو دعوت دی’
.شیعہ کا جنازہ ہے.’ ایک مولانا نے تھوڑا گھبرا کر کہا تو میرا ضبط جواب دے گیا’
.جنازے یہیں گلی میں رکھ دو.’ میں نے اپنی پارٹی کو کہا’
یہ شیعہ کا جنازہ نہیں ہے. خانوادہ رسولﷺ کا جنازہ ہے. ‘ میں نے مسجد کے سامنے کھڑے افراد کو سرد آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تو ان میں سے دبی دبی ‘لاحول ولا قوت! ‘لاحول ولا قوت!’ کی آوازیں بلند ہوئیں
کیوں یقین نہیں آیا میری بات پر؟’ میں نے بےقابو ہوتے ہوئے کہا. جواد نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روکنے کی کوشش کی مگر میں نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔
یہ دیکھو!’ میں نے سب سے پہلی میّت کے چہرے سے کفن اٹھایا اور مولانا کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسکو دیدار کروایا: ‘یہ غلام حسین نہیں، حسین ہے. بس سر نیزے پر نہیں چڑھا۔
یہ دیکھو!’ میں نے ایک اور خاموش تماشائی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور دوسری میّت کے منہ سے کفن ہٹایا: ‘یہ علی اصغر ہے. اس کا خون سے لت پت کفن دیکھو۔
اور یہ باقی دونوں جنازے…….’ میں نے غلام حسین کی بچی اور بیوی کے جنازوں کی طرف اشارہ کیا: ‘یہ دونوں جنازے سکینہ اور زینب کے ہیں


مسجد کے سامنے کھڑا پورا گروہ شرمساری سے سر جھکائے کھڑا تھا۔
یہ محلہ نہیں کربلا کا میدان ہے. پانی تم لوگوں نے بند کر دیا ان غریبوں کا. تم لوگ یزید سے بھی بدتر ہو. اس نے تو صرف سکینہ کے کان سے بالیاں کھنچوائیں تھیں اور زینب کو بےپردہ کیا تھا. تم لوگوں نے تو جان سے ہی مار دیا۔
مجھے اچانک پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں نے وہیں برستی بارش میں زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مارمار کر رونا شروع کر دیا۔
.بس کریں بھائی جان. مت روئیں.’ جواد نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چپ کرانے کی کوشش کی’
میں کیوں نا روؤں جواد؟ میرے رسولﷺ کا خانوادہ ختم کیا جا چکا ہے. میں روز قیامت کیا منہ دکھاؤں گا؟’ میں نے آنسوؤں کی دھند میں سے جواد کو ڈھونڈھتے ہوئے پوچھا تو وہ بھی خود پر قابو نا پا سکا اور رو پڑا۔
پورا مجمع خاموش تھا۔
بس شام غریباں میں ہم دو نفوس شامل تھے۔

پاک اردو ٹیوب Fashion

ہ۔ یہ ایک فرضی تحریر ہے یہاں پر آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں۔
«
Next
Newer Post
»
Previous
Older Post

No comments:

اپنا تبصرہ تحریر کریں توجہ فرمائیں :- غیر متعلقہ,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, ادارہ ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز ادارہ کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں