کتا پالنے کا کیا حکم ہے؟
سوال
کتا گھر میں پالنے سے اللہ کی رحمت نہیں آتی گھر میں؟ کیا ایسی بات ہے کہ کتا گھر میں نہیں رکھنا چاہیے؟
جواب
احادیث میں کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس گھر میں فرشتے نہیں آتے جس گھر میں کتے ہوں یا تصاویر ہوں۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا خیر و برکت سے محرومی کا باعث ہے؛ اس لیے شوقیہ طور پر کتے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے۔
البتہ اگر کتے کو جانوروں اور کھیتی کی حفاظت کے لیے یا شکار کے لیے پالا جائے تو اس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔
بخاری شریف میں ہے:
"لاتدخل الملائکة بیتًا فيه صورة ولا کلب". (البخاري، رقم: ٤۰۰۲، ۵ /۱۸، بیروت)
ترجمہ: رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا۔
ترمذی شریف میں ہے:
"من اتخذ کلبًا إلاّ کلب ماشیة أو صید أو زرع انتقص من أجره کل یوم قیراط". (الترمذي، رقم: ۱٤۹، باب ما جاء من أمسك كلباً الخ)
ترجمہ: جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وفي الأجناس: لاينبغي أن يتخذ كلباً إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم". ( ٥/ ٣٦١)
لہذا شوقیہ کتے پالنا جائز نہیں ہے، البتہ حفاطت یا شکار کی نیت سے پالنا کی گنجائش ہے۔ فقط واللہ اعلم
اہلیت میں کتے سے نفرت نہیں کی جاتی تھی، کیونکہ عرب کے لوگ اپنے مخصوص تمدن کی بنا پر کتے سے بہت مانوس تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے دِل میں اس کی نفرت پیدا کرنے کے لئے حکم فرمادیا کہ جہاں کتا نظر آئے اسے مار دیا جائے، لیکن یہ حکم وقتی تھا، بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کی بنا پر صرف تین مقاصد کے لئے کتا رکھنے کی اجازت دی۔ یا تو شکار کے لئے، یا غلہ اور کھیتی کے پہرے کے لئے یا ریوڑ کے پہرے کے لئے، (اگر مکان غیرمحفوظ ہو تو اس کی حفاظت کے لئے رکھنا بھی اسی حکم میں ہوگا) ان تین مقاصد کے علاوہ کتا پالنا صحیح نہیں۔ انگریزی معاشرت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اب بھی کتے سے نفرت نہیں، حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی ناپسندیدگی کے علاوہ بھی شوق سے کتا پالنا کوئی اچھی چیز نہیں، خدانخواستہ کسی کو کاٹ لے یا باوٴلا ہوجائے اور آدمی کو پتہ نہ ہو تو ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ پھر اس کا لعاب اپنے اندر ایک خاص زہر رکھتا ہے، اس لئے اس کے جھوٹے برتن کو سات دفعہ دھونے اور ایک دفعہ مانجھنے کا حکم دیا گیا ہے، حالانکہ نجس برتن تو تین دفعہ دھونے سے شرعاً پاک ہوجاتا ہے۔ باقی کتا نجس العین نہیں، اگر اس کا جسم خشک ہو اور کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے
اور یہ صحیح ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو اس میں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا۔ حدیث شریف میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بار حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص وقت پر آنے کا وعدہ کیا تھا، مگر وہ مقرّرہ وقت پر نہیں آئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پریشانی ہوئی کہ جبرائیل امین تو وعدہ خلافی نہیں کرسکتے، ان کے نہ آنے کی کیا وجہ ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ کی چارپائی کے نیچے کتے کا ایک بچہ بیٹھا تھا، اس کو اُٹھوایا گیا، اس جگہ کو صاف کرکے وہاں چھڑکاوٴ کیا گیا، اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرّرہ وقت پر نہ آنے کی شکایت کی، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کی چارپائی کے نیچے کتا بیٹھا تھا اور ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ (مشکوٰة باب التصاویر ص:۳
ایک مسلمان کی حیثیت سے تو ہمارے لئے یہی جواب کافی ہے کہ کتے کو اللہ تعالیٰ نے نجس پیدا کیا ہے، اس کے بعد یہ سوال کرنا کہ: ”کتا نجس کیوں ہے؟“ بالکل ایسا ہی سوال ہے کہ کہا جائے کہ: ”مرد، مرد کیوں ہے؟ عورت، عورت کیوں ہے؟ انسان، انسان کیوں ہے؟ اور کتا، کتا کیوں ہے؟“ جس طرح انسان کا انسان اور کتے کا کتا ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں، نہ اس میں ”کیوں“ کی گنجائش ہے، اسی طرح خالقِ فطرت کے اس بیان کے بعد کہ کتا نجس ہے، اس کا نجس ہونا بھی کسی دلیل و وضاحت کا محتاج نہیں۔ دُنیا کا کون عاقل ہوگا جسے پیشاب پاخانہ کی نجاست دلیل سے سمجھانے کی ضرورت ہو؟ لیکن دورِ جدید کے بعض وہ دانشور جن کو یہ سمجھانا بھی آج مشکل ہے کہ انسان، انسان ہے، بندر کی اولاد نہیں۔ عورت، عورت ہے، مرد نہیں، وہ اگر پیشاب کو بھی ”آبِ حیات“ اور ”داروئے شفا“ بتائیں، اور گندگی میں بھی ”وٹامن بی اور سی“ کا سراغ نکال لائیں، ان کو سمجھانا واقعی مشکل ہے۔ رہا یہ کہ: ”کتا تو وفادار جانور ہے، اس کو کیوں نجس قرار دیا گیا؟“ اس سوال کو اُٹھانے سے پہلے اس بات پر غور کرلینا چاہئے کہ کیا کسی چیز کا پاک یا ناپاک ہونا فرمانبرداری اور بے وفائی پر منحصر ہے؟ یعنی یہ اُصول کس فلسفے کی رُو سے صحیح ہے کہ جو چیز وفادار ہو وہ پاک ہوتی ہے، اور جو بے وفا ہو وہ ناپاک کہلاتی ہے؟
اس کے علاوہ اس بات پر غور کرنا ضروری تھا کہ دُنیا کی وہ کون سی چیز ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی خوبی اور کوئی نہ کوئی فائدہ نہیں رکھا؟ کسی چیز کی صرف ایک آدھ خوبی کو دیکھ کر اس کے بارے میں آخری فیصلہ تو نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ وفاداری ایک خوبی ہے، جو کتے میں پائی جاتی ہے (اور جس سے سب سے پہلے خود انسان کو عبرت پکڑنی چاہئے تھی)، لیکن اس کی اس ایک خوبی کے مقابلے میں اس کے اندر کتنے ہی اوصاف ایسے ہیں جو اس کی نجاستِ فطرت کو نمایاں کرتے ہیں، اس کا انسان کو کاٹ کھانا، اس کا اپنی برادری سے برسرِپیکار رہنا، اس کا مردار خوری کی طرف رغبت رکھنا، گندگی کو بڑے شوق سے کھاجانا وغیرہ، ان تمام اوصاف کو ایک طرف رکھ کر اس کی وفاداری سے وزن کیجئے، آپ کو نظر آئے گا کہ کس کا پلہ بھاری ہے؟ اور یہ کہ کیا واقعتا اس کی فطرت میں نجاست ہے یا نہیں؟
یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ جن چیزوں کو آدمی خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، ان کے اثرات اس کے بدن میں منتقل ہوتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ شانہ نے پاک چیزوں کو انسان کے لئے حلال کیا ہے، اور ناپاک چیزوں کو اس کے لئے حرام کردیا ہے، تاکہ ان کے نجس اثرات اس کی ذات اور شخصیت میں منتقل نہ ہوں۔ اور اس کے اخلاق و کردار کو متأثر نہ کریں۔ خنزیر کی بے حیائی اور کتے کی نجاست خوری ایک ضرب المثل چیز ہے۔ جو قوم ان گندی چیزوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرے گی اس میں نجاست اور بے حیائی کے اثرات سرایت کریں گے، جن کا مشاہدہ آج مغرب کی سوسائٹی میں کھلی آنکھوں کیا جاسکتا ہے۔
اسلام نے بلاضرورت کتا پالنے کی بھی ممانعت کی ہے، اس لئے کہ صحبت و رفاقت بھی اخلاق کے منتقل ہونے کا ایک موٴثر اور قوی ذریعہ ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ نیک کی صحبت و رفاقت آدمی کو نیک بناتی ہے اور بد کی رفاقت سے بدی آتی ہے۔ یہ اُصول صرف انسانوں کی صحبت و رفاقت تک محدود نہیں بلکہ جن جانوروں کے پاس آدمی رہتا ہے ان کے اخلاق بھی اس میں غیرمحسوس طور پر منتقل ہوتے ہیں۔ اسلام نہیں چاہتا کہ کتے کے اوصاف و اخلاق انسان میں منتقل ہوں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے کتا رکھنے کی ممانعت فرمادی ہے، کیونکہ کتے کی مصاحبت و رفاقت سے آدمی میں ظاہری اور نمائشی وفاداری اور باطنی نجاست و گندگی کا وصف منتقل ہوگا۔
اور اس کا ایک سبب یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات کے مطابق کتے کے جراثیم بے حد مہلک ہوتے ہیں، اور اس کا زہر اگر آدمی کے بدن میں سرایت کرجائے تو اس سے جاں بر ہونا اَزبس مشکل ہوجاتا ہے۔ اسلام نے نہ صرف کتے کو حرام کردیا تاکہ اس کے جراثیم انسان کے بدن میں منتقل نہ ہوں بلکہ اس کی مصاحبت و رفاقت پر بھی پابندی عائد کردی، جس طرح کہ ڈاکٹر کسی مجذوم اور طاعونی مریض کے ساتھ رفاقت کی ممانعت کردیتے ہیں۔ پس یہ اسلام کا انسانیت پر بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے کتے کی پروَرِش پر پابندی لگاکر انسانیت کو اس کے مہلک اثرات سے محفوظ کردیا۔
No comments: