قرنطینہ آج کل پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں قرنطینہ بنانے کا منصوبہ سب سے پہلے کس نے پیش کیا تھا ۔۔ ؟
ابن سینا کا نظریہ قرنطینہ
کورونا وائرس نے اس وقت تقریبًا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ اور دنیا بھر کے سائنسدان اس کا توڑ نکالنے یا اس کے خاتمے کے لیئے ویکسین بنانے میں لگے ہوئے ہیں دن رات محنت کر رہے ہیں ۔
ابن سینا مسلم سائنسدانوں میں مشہور ترین سائنسدان تھے ۔ وہ طبیعات ، رہاضی ، فلسفیات ، فلکیات اور ماہر دینیات بھی تھے۔
ابن سینا ایک عظیم طبیب تھے انہوں نے وبائی امراض کے خاتمے کیلئے ہزاروں سال قبل کچھ طریقے ایجاد کرلیے تھے جس سے موجودہ دور میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
آج پوری دنیا میں کورونا پھیل چکا ہے اور اس کی کوئی ویکسین بھی نہیں ہے نا ہی آج سے پہلے کبھی اس کا ذکر ہوا ہے ۔
اس سے بچاؤ کا بس ایک ہی طریقہ ہے وہ احتیاط اور قرنطینہ۔ یہ ایک ایسی وبا ہے کہ جس کی وجہ سے صرف چار ماہ جیسے قلیل عرصے میں لاکھوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اس سے بچاو کے لیئے پوری دنیا میں لاک ڈاون نافذ کر دیا گیا ہے۔
یہ طریقہ بھی ابن سینا کا بتایا گیا طریقہ ہے۔ ابن سینا نے ہزاروں سال قبل قرنطینہ کا فلسفہ پیش کیا تھا کہ کسی بھی وبائی بیماری جو کے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو اس کیلئے سب سے پہلے قرنطینہ اختیار کرنا چاہیے۔
ابن سینا کی سب سے اہم کتاب “دی کینن آف میڈیسن” جو کہ 1025 میں شائع ہوئی اس میں ابنِ سینا نے قرنطینہ سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا سینا کا کہنا تھا کسی بھی انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہونے والی وباء کے آنے پر 40 روز کا قرنطینہ اختیار کیا جائے تاکہ وباء کو پھیلنے سے پہلے کمزور کیا جاسکے۔ ابن سینا کی یہ کتاب بہت مشہور ہے اور روشن چراغ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب سے میڈیسن بنانے والی کمپنیاں اب بھی مستفید ہو رہی ہیں۔
ابن سینا ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پتہ لگایا کہ یرقان کیسے ہوتا ہے انہوں نے ہی بہت ساری جان لیوا بیماریوں کے علاج کے دوران مریض کو بے ہوش کرنے کا طریقہ بھی بتایا ۔ بہت سے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ ابنِ سینا ایک ایسے طبیب تھے جو اپنی خدمات کا معاوضہ بھی نہیں لیتے تھے۔
اس عظیم مسلمان سائنسدان کی تحقیقات سے آج دنیا بھر کے سائنسدان اور میڈیسن کمپنیاں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور ایک مسلمان قوم ہے جو اپنے اجداد کی اتنی خدمات کے باوجود آج دنیا کے ہر شعبے میں پیچھے ہیں
------------
مسلم سائنسدان ابن سینا نے ایک ہزار سال پہلے قرنطینہ کا تصور پیش کیا تھا۔
قرنطینہ آج کل پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں قرنطینہ بنانے کا منصوبہ سب سے پہلے کس نے پیش کیا تھا ۔۔ ؟
کورونا وائرس ایک ایسی وبا ہے جو تقریبًا پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے اور اس سے بچاؤ کے لئے قرنطینہ بنائے گئے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں ابن سینا نے سب سے پہلے قرنطینہ کا تصور پیش کیا تھا ۔
ابن سینا کون تھا ؟
ابن سینا کا پورا نام ” علی الحسین بن عبداللہ بن الحسن بن علی بن سینا ” تھا۔ ابن سینا مشہور فلسفی تھے۔ ابن سینا کو ابی سینا بھی کہا جاتا ہے۔ ابن سینا فارس کے رہنے والے ایک جامع العلوم شخص تھے۔ جنھیں ہارون الرشید کے دور میں اسلام کے سنہری دور کے سب سے اہم مفکرین اور ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا شمار مشہور مسلم سائنسدانوں میں کیا جاتا ہے ۔
ابن سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا لقب ” الشیخ الرئیس” ہے۔ ابن سینا اسلام کے عظیم ترین مفکرین میں سے ایک تھے اور مشرق کے مشہور ترین فلسفیوں اور اطباء میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 450 کتابیں لکھیں جن میں سے اب تقریبًًا 240 ہی باقی بچی ہیں ۔ ان میں بہت چیزیں 1650 تک قرون وسطی کی یونیورسٹیوں میں ایک معیاری طبی کتب کے طور پر پڑھائی جاتی تھیں۔ 1973 میں، ابن سینا کی کتاب ’’طبی قوانین نیو یارک میں دوبارہ شائع کی گئی۔ ابن سینا کو طبی دنیا کا آفتاب بھی کہا جاتا ہے۔
ابن سینا کے حالات زندگی
ابن سینا فارس کے ایک گاوں ” افنشہ ” میں پیدا ہوئے ۔ ان کی والدہ کا تعلق بھی اسی گاوں سے تھا جبکہ والد کا تعلق بلخ سے آئے تھے ۔ جہاں ان کے والد کو سلطان نوح بن منصور السامانی کے کچھ مالیاتی امور کی ادارت سونپی گئی تھی۔ بخارا میں دس سال کی عمر میں قرآن مکمل کیا اور فقہ، ادب، فلسفہ اور طبی علوم کے حصول میں سرگرداں ہو گئے اور ان میں کمال حاصل کیا۔
20 سال کی عمر تک وہ بخارا میں رہے اور پھر خوارزم چلے گئے، جہاں وہ تقریبًا دس سال تک رہے۔ 392ھ سے 402ھ خوارزم سے جرجان پھر ری اور پھر ہمدان منتقل ہو گئے ۔ جہاں نو سال رہنے کے بعد اصفہان میں علاء الدولہ کے دربار سے منسلک ہو گئے، اس طرح انہوں نے تقریبًا اپنی ساری زندگی سفر کرتے ہوئے گزاری ۔
ان کا انتقال قولنج کے مرض کی وجہ سے ہمدان میں ہی ہوا ۔ آخری وقت میں وضو کر کے رب سے توبہ کی اور غلاموں کو آزاد کر دیا ۔
No comments: