ہم یار لوگ جب کبھی بھی مل بیٹھ کر پرانی باتیں یاد کرتے ہیں تو سب سے زیادہ آلودگی سے پاک ماحول کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس کے بعد شام کے بعد کا پرسکون ماحول۔ جہاں کاروباری لوگ عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے ہی اپنی دکان داری سیمٹنے پر لگ جاتے۔ کوشش یہی ہوتی تھی کہ مغرب کی نماز گھر جاکر ادا ہو۔ اور ہوتا بھی ایسا ہی تھا۔
گھر کے بڑوں نے اپنے کام کاج بند کرکے ہر صورت مغرب کے بعد گھر پر ہونا، ہم نے بڑے بزرگوں کے ساتھ باتیں کرنی، کھانے کے بعد تھوڑی بہت چہل قدمی، ٹی وی دیکھنا، عشا کی نماز پڑھنے کے بعد سونے کی تیاری، تھوڑی گپ شپ اور شرارتیں کرتے ہمیں پتہ نہیں چلنا کہ کب پرسکون نیند آجاتی۔ گھر سے باہر مجال ہے کہ کسی قسم کا شور آتا ہو۔ یہ بھی واضح رہے کہ میں کسی گاؤں کا حال نہیں بتارہا، بلکہ شہر کے گھروں کی روٹین بتارہا ہوں۔
اس کے برعکس آج ہمارے آس پاس کتنی افراتفری ہوگئی ہے۔ کیا عجب نفسانفسی کا دور آگیا ہے۔ بازار سارا دن سنسان، مگر شام کے بعد تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ کیا بڑی بڑی عمدہ دکانیں اور کیا زبردست سجاوٹ۔ جس سے پوچھو تو یہی سننے کو ملتا کہ صاحب اصل گاہکی تو مغرب کے بعد شروع ہوتی ہے اور رات گئے چلتی ہے۔ اور یہی الٹا کھیل عجیب لگتا ہے اب۔
جب ہم چھوٹے تھے تو صرف عید کے آخری دنوں میں بازار رات گئے تک کھلتے تھے اور ہم بچوں کو وہ راتیں بڑی زبردست لگتی تھیں۔ ایک عجیب سی ہلے گلے والی تبدیلی۔ مگر یہ نہیں پتہ تھا آگے جاکر ایسی تبدیلی ہمارے بچوں کو روز ہی نصیب ہوگی۔
مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا فطرت کے برعکس اس روٹین کا کوئی فائدہ ہوا؟ کیا لوگوں کی معاشی زندگی میں بہتری آئی؟ اب جب کاروبار رات دن کا فرق کیے بغیر کھلے رہتے ہیں تو پھر ہمیں آس پاس خوشحالی نظر کیوں نہیں آتی؟ جب لمبے وقت کی دکان داری بھی کرنی ہو، رات گئے تک کاروبار یا جاب میں مصروف رہنے کی وجہ سے بال بچوں سے قربت کی قربانی دینی ہو تو پھر بھی ہمارے ہاں ذہنی امراض میں اضافہ کیوں؟ ڈپریشن، اسٹریس، خوف، وہم، بے چینی و بے سکونی کیوں ہے ہر طرف؟
ہم میں بے حد صلاحیت بھی ہے، ہم محنتی بھی ہیں، مگر ایمان داری اور اللہ پر توکل کی کمی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ویسے بھی جب اپنی خواہشات کو ضروریات بنالیا جائے تو پھر زندگی میں بے سکونی دوڑے چلی آتی ہے۔ تب ہم چاہے کمانے میں دن رات ایک کردیں، چار چار جگہ کام کریں، پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہونا۔ پرسکوں زندگی کےلیے ہمیں فطرت کے بنائے نظم و ضبط کی طرف واپس لوٹنا ہی ہوگا۔ اپنے کام، آرام اور فیملی کے ساتھ بہترین وقت گزاری کو ایک معیاری ترتیب میں لانا ہوگا۔ ساتھ ہی اپنی دکان داری سے جھوٹ کو، بے ایمانی و لالچ کو ختم کرنا ہوگا۔
اسی حوالے سے مجھے ایک مرحوم دکان دار یاد آرہے ہیں، جن کی گارمنٹس اور جنرل اسٹور کی دکان تھی۔ وہ اس افراتفری کی دوڑ میں بھی صبح 7 بجے دکان کھولتے اور مغرب تک بند۔ چاہے عید ہو یا عام دن، ان کی یہی روٹین رہتی۔ گاہکی بھی زبردست ہوتی تھی۔ تبھی انہوں نے اچھی خاصی خوشحالی کی زندگی گزاری۔ ایک بار میں نے ان کے کاروبار کی کامیابی کا راز پوچھا تو کہنے لگے بیٹا میں سورج کے ساتھ ساتھ اپنے کام کو طلوع و غروب کرتا ہوں اور دوسرا یہ کہ میں کبھی سیزن نہیں لگاتا۔ جو چیز گاہک کو عام دنوں میں 100 کی ملتی عید، رمضان میں بھی 100 کی ہی ملتی ہے۔ یہ نہیں کہ خوشیوں کے دنوں میں جان بوجھ کر لوٹ مار شروع کردوں۔
یقین مانیے، ان بزرگ کو دنیا سے گئے چھ سال ہوچکے ہیں مگر آج تک میں نے ان جیسا دکان دار دوبارہ نہیں دیکھا۔ حتیٰ کہ ان کی اپنی اولاد بھی آج کل کی بھیڑچال کا شکار ہوچکی ہے۔ پچھلے مہینے اسی دکان پر ملاقات ہونے پر کہہ رہے تھے کہ ابا کا زمانہ بہت یاد آتا ہے، اب تو دن رات گاہکی میں گزار دیتے ہیں پھر بھی پوری نہیں پڑتی۔ میں نے کہا بھی کہ وہ اپنے ابا مرحوم کے کاروباری راز پر ایمان رکھتے ہوئے اسی کو اپنائیں۔ مگر انہوں نے میری یاد دہانی کو یہ کہتے ہوئے ٹال دیا چھوڑو یار اب زمانہ تیز ہوگیا ہے، بہت مقابلہ ہے۔ اور پتہ نہیں کیا کچھ کہتے رہے مگر میرے کانوں میں ان کے ابا مرحوم کے یہی الفاظ گونج رہے تھے ’’بیٹا میں سورج کے ساتھ ساتھ اپنے کام کو طلوع و غروب کرتا ہوں اور دوسرا یہ کہ میں کبھی سیزن نہیں لگاتا‘‘۔
No comments: