وہ قدرت جو سب کی خالق ہے، وہ سب کی مددگار بھی ہے قدرت سے رشتہ مضبوط کیجئے
جن معاشروں میں مسائل زیادہ ہوتے ہیں وہاں مایوسی بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہر فرد کے مسائل مختلف ہوتے ہیں، مگر کچھ مسائل معاشرے میں سبھی کی پریشانی کا مشترکہ سبب بنتے ہیں۔ جیسا کہ بیروزگاری، مہنگائی اور صحت سمیت دیگر کچھ مسائل کا سامنا مختلف معاشروں میں تقریباً سبھی کو ہوتا ہے۔ کچھ مسائل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، اگر وہ فوری حل نہ ہوں تو انسان مایوس ہوجاتا ہے۔ ان میں پسند کی شادی، اچھی نوکری، گاڑی، اپنا گھر اور مرضی کے اداروں میں اعلیٰ تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح کچھ خواہشات کی تکمیل بھی انسان کی تمنا ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ نہ بھی ہو تو زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ مگر دنیا میں رہتے ہوئے جب انسان دوسروں کو دیکھتا ہے تو پھر بہت سی خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے، مثلاً بڑے لوگوں سے تعلقات، دنیا کی سیر، جہازوں پر سفر، مرضی کی ہوٹلنگ، بینک بیلنس اتنا کہ ختم ہونے کا ڈر نہ ہو۔ چھوٹے کاروبار سے بڑا اور پھر بہت بڑا۔ اسی طرح خواہشات کی طویل فہرست ہے کہ کچھ انسان ان کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اگر وہ پوری نہ ہوں تو وہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ مایوسی گناہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مایوس ہونے سے منع فرمایا ہے۔ اگر انسان کو قدرت پر پختہ یقین ہو اور اپنی محنت کے ساتھ ساتھ اس ذات پر بھروسہ کرے تو پھر دنیا کا کوئی ایسا بڑا کام اور خواہش نہیں جو پوری نہ ہوسکے۔ اس کی کئی مثالیں آپ کے اردگرد اور کئی دنیا بھر میں ملتی ہیں۔ اگر انسان مایوس ہوئے بغیر محنت کرتا ہے اور ناکامی کو کامیابی کی پہلی سیڑھی سمجھتا ہے تو پھر وہ ایک دن کامیاب ضرور ہوتا ہے۔ اگر آپ کو اپنے معاملات میں مایوسی کا سامنا ہے تو اپنے اردگرد کسی کامیاب انسان کی زندگی کا جائزہ لیں یا اسے ملنے کی کوشش کریں اور اس سے رہنمائی لیں کہ وہ کامیابی کی اعلیٰ منزل پر کیسے پہنچا؟ اس کی زندگی میں کیا مشکلات آئیں اور اس نے ان کا کیسے سامنا کیا؟ اگر آپ کی کسی کامیاب انسان سے ملاقات ممکن نہیں تو پھر آپ لائبریری جائیں وہاں کامیاب لوگوں کو پڑھیں۔ اگر اس کی سہولت بھی نہیں تو پھر حل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ سنگل کلک پر آپ دنیا کے کامیاب لوگوں کو پڑھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں اور انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہوسکتا ہے، لہٰذا آپ اپنے مذہب کے مطابق روزانہ کچھ وقت عبادت میں گزارتے ہوں گے۔ اس وقت کے ساتھ آپ روزانہ پانچ، دس، بیس، پچیس منٹ یا آدھا گھنٹہ نکال کر کسی ایک انسان کی کامیابی کی کہانی سنیں۔ اس کے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ آپ کو اپنی راہ متعین کرنے، اس میں درپیش مشکلات کا سامنا کرنے اور آگے بڑھنے کےلیے ضروری اقدامات کا پتہ چلے گا۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو سب سے پہلے اسلام کو پڑھیں۔ جب ہر طرف جہالت کے اندھیرے تھے، دشمن طاقتور تھے، ایسے میں ایک بچہ عرب کی سرزمین پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ بچہ ان ہی کے درمیان کس طرح اپنی عمر کے مراحل طے کرتے ہوئے جوان ہوتا ہے اور پھر خدا کے حکم پر اعلان نبوت کیا جاتا ہے۔ آپ تصور کریں اور مطالعہ کریں کہ آپؐ کےلیے کتنی مشکلات تھیں، آپؐ نے کس طرح ان مشکلات کا سامنا کیا؟ وہ زمانہ جس کے افراد آپؐ کی جان کے دشمن تھے، پھر ان ہی میں سے کئی آپ کی جان کے یوں محافظ بنے کہ آپؐ کےلیے مرمٹنے کو تیار ہوتے تھے۔ آپؐ کا حکم آتے ہی نہ اپنی جان کی پرواہ کرتے، نہ مال کی اور نہ ہی اولاد کی۔ وہ وجہ تخلیق کائنات تھے، مگر اس کے باوجود انہوں نے تکالیف کا سامنا کیا اور منزل کے حصول کےلیے محنت کی۔ کسی لمحے پر بھی مایوس نہ ہوئے۔ یہ کائنات کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اگر انسان کو سمجھ آجائے تو وہ اپنے معاملات میں مایوس ہونا چھوڑ دے۔ آپ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی غور و فکر کرسکتے ہیں، جہاں سے آپ کو اپنے اندر ہمت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ آپ تصور کریں کہ جب انسان کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی ہے، اگر وہ کسی عام گھرانے میں پیدا ہو جہاں سہولیات نہ ہوں، جہاں اچھے اسپتال نہ ہوں، مالی حیثیت بھی ایسی نہ ہوکہ وہ کہیں اعلیٰ طبی سہولیات سے مزین اسپتال میں بچے کی پیدائش کے وقت منتقل ہوسکیں۔ پھر کس طرح انسان دنیا میں آتا ہے۔ شدید سردی یا گرمی میں موسم کی سختی والدین کو کتنا پریشان کرتی ہے کہ نجانے ان کا بچہ کس طرح بیماریوں سے بچ پائے گا۔ آپ جنگلی حیات پر ہی غور کرلیجئے۔ شیر کا بچہ، کسی ہرن کا بچہ اور کسی درخت پر گھونسلے میں رکھے انڈوں سے نکلنے والا ننھا سا پرندہ کس طرح بڑا ہوتا ہے؟ آپ کسی بلند درخت پر بنے گھونسلے کا تصور کیجئے کہ ایک فاختہ آندھیوں اور طوفانی بارشوں سے بلاخوف و خطر تنکوں سے بنے گھونسلے میں اپنے انڈے دیتی ہے۔ پھر کون ہے جو ان انڈوں کی حفاظت کرتا ہے؟ مخصوص وقت تک ان انڈوں کا نگہبان بنتا ہے۔ پھر یہیں سے ننھی فاختہ پیدا ہوتی ہے۔ اس دوران بارشیں آتی ہیں، طوفان آتے ہیں، زلزلے کہ جن سے بلندوبالا مضبوط عمارتیں زمین بوس ہوکر نیست ونابود ہوجاتی ہیں، مگر یہ جان کس طرح محفوظ رہتی ہے؟ مایوس لوگوں اور ناممکن کے ممکن ہونے سے گھبرانے والوں کےلیے اگر ہم صرف مرغی کے انڈے کو ہی دیکھ لیں تو بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے۔ آپ غور کیجئے کہ ایک انڈہ جو ہماری خوراک کا بھی حصہ ہے، ہم اسے توڑ کر گرم توے پر ڈالیں تو اس سے آملیٹ تیار کیا جاسکتا ہے اور آپ مختلف ریسیپیز کے مطابق اس سے مختلف کھانے بناسکتے ہیں۔ مگر یہی انڈہ اگر چوزہ حاصل کرنے کےلیے رکھیں تو اس گول گیند نما چیز سے ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ اگر ہمیں گرمی میں بغیر پنکھے کسی بند اندھیرے کمرے میں کچھ وقت گزارنا پڑجائے تو ہمارا کیا بنے؟ ممکن ہے ہماری زندگی ہی ختم ہوجائے یا کم ازکم طبیعت خراب ہوجائے۔ مگر انڈے میں داخل ہونے کا کوئی راستہ ہے، نہ ہوا کےلیے کوئی سوراخ، روشنی کےلیے کوئی روشن دان ہے، نہ بیرونی دنیا سے آکسیجن لینے کی کوئی نالی۔ اس انڈے کے اندر ایک زندگی جنم لیتی ہے۔ کس طرح؟ دو رنگوں کے گاڑھے پانی سے چوزے کا جسم بنتا ہے، اس کی چونچ تیار ہوتی ہے، اس کی ٹانگیں بنتی ہیں، پر بنتے ہیں، سر، آنکھیں، گردن، پاؤں، دل اور وہ سب نظام جس سے ایک چوزہ زندہ سلامت رہ کر رفتہ رفتہ بڑا مرغا بن جاتا ہے۔ یہ چاروں طرف بند انڈے میں زندگی کون بنا رہا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ پھر ذرا تصور کریں کہ جب دن پورے ہوجاتے ہیں تو چوزہ اندر سے ہی اپنی چونچ مار کر انڈے سے باہر نکل آتا ہے۔ اس ننھی جان کو چونچ مار کر باہر نکلنے کا شعور کس نے دیا؟ ہم نے کون سی ونڈو انسٹال کی ہے اس میں؟ کس نے اسے یہ بتایا کہ اب تم چلنے کے قابل ہو، اس دنیا سے باہر نکلو اور باہر رونق میں جاؤ جہاں تمہاری ماں اور بہن بھائی انتظار کررہے ہیں۔ پھر باہر نکلتے ہی چوزہ کسی سے ملاقات کیے بغیر ہی اپنی آواز نکالتا ہے۔ چوں، چوں، چوں کی آواز کس نے سکھائی؟ یہ وہی ذات ہے، وہی قدرت ہے جس نے پہلے سے نہ ہونے والے انسان کو پیدا فرمایا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تبھی تو وہ فرماتا ہے کہ وہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ بس انسان کو غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اپنی مشکلات اور مسائل سے گھبرانے والوں کےلیے ہر چیز میں سبق ہے۔ مایوس نہ ہوں، ہمت کریں، محنت کیجئے اور یاد رکھیے کہ ناکامیوں سے ہی کامیابی کی طرف راستے نکلتے ہیں۔ جو بچے گرنے سے ڈرتے ہیں، وہ بہت دیر سے چلتے ہیں۔ ذہن میں رہنا چاہیے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے۔ وہ قدرت جو سب کی خالق ہے، وہ سب کی مددگار بھی ہے۔ دنیاوی سہاروں سے محروم افراد پختہ یقین کرلیں کہ وہ تنہا نہیں بلکہ سب سے زیادہ طاقتور مددگار ان کے ساتھ ہے۔ ضرورت اتنی سی ہے کہ قدرت سے اپنا رشتہ مضبوط کیا جائے۔
No comments: